کنور رحمان خاں
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پنجاب کے ضلع قصور کی تحصیل پھول نگر میں قائم نجی میڈیکل کالج پاکستان ریڈ کریسنٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے طلباء کی جانب سے اضافی فیسوں سے متعلق شکایت پر کالج کا دورہ کیا۔ اس دوران پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر نے چیف جسٹس آف پاکستان سے پوچھا کہ ٹیلی ویژن پر سیاست دان بیٹھ کر آپ کو بابا رحمتاں کہتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ’ ہاں وہ ہیں بابا رحمتاں، اور انہیں کسی کی تنقید کی کوئی پرواہ نہیں‘۔
چیف جسٹس نے اضافی فیسوں کے معاملے پر طلباء سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ میڈیکل کالج کی فیسوں کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ نجی میڈیکل کالجوں کی فیس ساڑھے آٹھ لاکھ روپے ہو۔ میں نے کالج انتظامیہ سے کہہ دیا ہے کہ دو دنوں کے اندر لی جانے والی اضافی فیس واپس کریں۔
چیف جسٹس کی ہدایت پر نجی میڈیکل کالج کے اکاؤنٹس دفتر سر بمئر کر دیا اور انہوں نے تمام ریکارڈ ایف آئی اے کو اپنی تحويل میں لینے کا حکم دیا ہے۔
اس سے قبل صوبہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاهور میں موجود سپریم کورٹ لاهور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے میڈیکل کالجز کی فیسوں میں اضافے اور سہولیات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ میڈیکل کالجز میں کیا سہولتیں دی جاتی ہیں۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میڈیکل کالجز میں کیا سہولتیں ہیں۔
چیف جسٹس نے سماعت کے موقع پر ریمارکس دیئے کہ لوگ کہتے ہیں بابا رحمتے ایسے ہی لگا رہتا ہے، بابارحمت کیا کر رہا ہے، اس حوالے سے مجھے کسی کی تنقید کی کوئی پرواہ نہیں ۔ جو مرضی لگا رہے، عوام کی بھلائی کے لیے کام کرتا رہوں گا۔
انہوں نے کہا ۔’ بابے کا تصور کہاں سے لیا۔ آج بتاتا ہوں۔ بابا وہ ہے جو لوگوں کے لیے سہولتیں پیدا کرتا ہے، یہ لوگوں کے مسائل حل کرنا چاہتا ہے، بابار رحمت کا تصور اشفاق احمد کی کتابوں سے لیا” ۔
کیس کی سماعت کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجازالاحسن کے ہمراہ سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈ یالوجی کا دورہ کرتے ہوئے مریضوں کو دی جانے والی سہولتوں پر خفگی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی اسپتالوں اور نجی میڈیکل کالج میں آمد کے موقع پر مریضوں کے لواحقین نے چیف جسٹس کے حق میں نعرے لگائے۔