رسائی کے لنکس

طالبان نے خواتین کو سرکاری میڈیکل اداروں میں داخلے کی اجازت دے دی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

طالبان نے مبینہ طور پر افغانستان میں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل لڑکیوں کو مارچ میں شروع ہونے والے نئے تعلیمی سال کے لیے سرکاری میڈیکل اداروں میں داخلہ لینے کی اجازت دے دی ہے۔

طالبان کے زیر انتظام سرکاری باختر نیوز ایجنسی نے منگل کو بتایا کہ کابل میں صحت عامہ کی وزارت کے ایک ڈائریکٹو کے بعد ایک درجن سے زیادہ افغان صوبوں میں داخلے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ایجنسی نے اس بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں کیں۔

وزارت کے اس مبینہ حکم پر افغان حکام کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے لڑکیوں کی چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے اور خواتین کو سرکاری اور نجی شعبوں میں کام کرنے سے روک دیا ہے۔

وزارت صحت کا رپورٹ کردہ حکم طالبان کے قبضے سے قبل گریجویشن کرنے والی لڑکیوں کو اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنے اور صحت کے شعبے میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے ایک سہولت کی علامت ہو سکتا ہے۔ صحت کا شعبہ ان چند شعبوں میں سے ایک ہے جہاں افغان خواتین کو اب بھی کام کرنے کی اجازت ہے۔

امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندیوں نے افغانستان کے پہلے سے کمزور صحت کے شعبے کو نقصان پہنچایا ہے کیونکہ ملک میں ایک سال سے ایک بھی ڈاکٹر سامنے نہیں آیا ہے۔

اقوام متحدہ نے بارہا خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں کوالیفائڈ ہیلتھ ورکرز کی بالعموم اور خواتین ہیلتھ ورکرز کی بالخصوص کمی کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل گوتریس نے منگل کو ایک بار پھر کہا کہ طالبان کو لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی اور خواتین کی ملازمت پر اشتعال انگیز پابندی ختم کردینی چاہیے۔

گوتریس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا،”خواتین اور لڑکیوں کو کلاس رومز سے لے کر فیصلہ سازی کی میزوں تک، افغان زندگی کے تمام پہلوؤں میں بھرپور اور بامعنی طور پر شرکت کے قابل ہونا چاہیے۔“

انہوں نے یہ بیان قطر میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس کی میزبانی کے ایک روز بعد دیا، جہاں 25 ملکوں کے سفیروں کے ساتھ ساتھ یورپی یونین، اسلامی تعاون تنظیم اور شنگھائی تعاون تنظیم نے افغانستان کے ڈی فیکٹو طالبان حکام کے ساتھ ربط ضبط پر تبادلہ خیال کیا۔

خلیجی ریاست کے دارالحکومت دوحہ میں کانفرنس کے نتائج کے بارے میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے گوتریس نے لڑکیوں کی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے لیے یہ بات نا قابل تصور ہو گی کہ ان کی تین پوتیاں سیکنڈری اسکول اٹینڈ نہ کر سکیں اور یونیورسٹی نہ جا سکیں۔

سیکرٹری جنرل نے کہا، ’’میں چاہوں گا کہ افغانستان میں تمام پوتیوں اور بیٹیوں کو بالکل وہی حقوق حاصل ہوں جو امید ہے کہ میری پوتیاں میرے ملک میں حاصل کریں گی۔‘‘

انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اس ماہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ غیر ملکی مالیاتی اور تکنیکی ترقی میں تیزی سے کمی نے افغان ہیلتھ سسٹم کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

انسانی حقوق سے متعلق امریکہ میں قائم ادارے نے کہا کہ طالبان کی جانب سے خواتین کی ملازمت پر سخت پابندیو ں نے بحران میں اضافہ کیا ہے ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "خواتین پر صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کے مخصوص عہدوں کے علاوہ، زیادہ تر سول سروس کی ملازمتوں، غیر سرکاری تنظیموں اور اقوام متحدہ کے ساتھ ملازمت اور کچھ نجی شعبے کی ملازمتوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔"

رپورٹ میں کہا گیا کہ خواتین اور لڑکیوں پر پابندیوں نے صحت کی سہولیات تک ان کی رسائی میں سخت رکاوٹ پیدا کی ہے اور افغانستان میں مستقبل کی خواتین ہیلتھ کیئر ورکرز کی تقریباً تمام تربیت کو روک دیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG