رسائی کے لنکس

افغان طالبان اور پاکستان کا امن مذاکرات کی بحالی کی ضرورت پر اتفاق


افغان طالبان کے دوحہ آفس کے ترجمان کے مطابق طالبان کا وفد چھ اکتوبر تک پاکستان میں قیام کرے گا (فائل فوٹو)
افغان طالبان کے دوحہ آفس کے ترجمان کے مطابق طالبان کا وفد چھ اکتوبر تک پاکستان میں قیام کرے گا (فائل فوٹو)

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے اعلیٰ سطح کے وفد نے ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے اسلام آباد میں الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔

جمعرات کو دفتر خارجہ میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران فریقین نے افغان امن مذاکرات کی جلد بحالی کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔

ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں طالبان کا 12 رکنی وفد دفتر خارجہ پہنچا۔ جہاں شاہ محمود قریشی نے ان کا استقبال کیا اور وفد کو وزارت خارجہ آمد پر خوش آمدید کہا۔

اس موقع پر پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔

طالبان وفد کی دفتر خارجہ آمد پر شاہ محمود قریشی نے ان کا استقبال کیا۔
طالبان وفد کی دفتر خارجہ آمد پر شاہ محمود قریشی نے ان کا استقبال کیا۔

طالبان کے وفد نے پاکستان آنے کے بعد اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔

ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان طالبان کے وفد نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ طالبان کے وفد کی قیادت ملا عبد الغنی برادر کر رہے تھے۔

ملاقات میں افغانستان میں قیام امن، مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے اور مذاکرات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ملاقات میں کہا کہ پاکستان افغانستان کے مسئلے کا حل افغان عوام کی خواہشات اور افغان قوم کے ذریعے چاہتا ہے۔

وزیر اعظم کے مطابق پاکستان افغانستان کے مسائل کا حل مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے تلاش کرنے پر یقین رکھتا ہے۔

ملاقات میں عمران خان نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ افغانستان میں مفاہمت اور مذاکرات کے لیے پاکستان کردار ادا کرتا رہے گا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ طالبان وفد نے وزیر اعظم کو مذاکرات جاری رکھنے کا یقین دلایا۔

وزیر خارجہ سے ملاقات

قبل ازیں ملاقات کے دوران خطے کی صورت حال، افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں مشترکہ ذمے داری کے تحت نہایت ایمانداری سے مصالحانہ کردار ادا کیا ہے۔ پُر امن افغانستان پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔

ان کے بقول، "ہماری خواہش ہے کہ فریقین مذاکرات کی جلد بحالی کی طرف راغب ہوں تاکہ دیرپا اور پائیدار امن و استحکام کی راہ ہموار ہو سکے۔"

'وفد کے دورہ پاکستان سے قیام امن میں مدد نہیں ہو گی'

طالبان کے وفد کی اسلام آباد آمد پر افغانستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ وفد کے پاکستان کے دورے سے افغانستان میں امن کے قیام میں مدد نہیں ہوگی۔

افغان حکومت نے پاکستان پر بھی زور دیا ہے کہ وہ طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔

افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی کا کہنا تھا کہ طالبان کی پر تشدد کارروائیاں جاری ہیں۔ صدارتی انتخابات میں ملک کے مختلف حصوں میں حملے کیے گئے۔ انہوں نے انتخابات میں حملوں کی دھمکی دی تھی جبکہ اب بھی وہ تشدد کی کارروائیاں کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

صدیق صدیقی کے مطابق کابل نے پاکستان سے ہمیشہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہیں ختم کرکے خطے میں قیام امن کے لیے مثبت کردار ادا کرے۔

افغانستان میں 18 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان تقریباً ایک سال سے امن مذاکرات ہو رہے تھے۔ گزشتہ ماہ فریقین نے کہا تھا کہ وہ امن معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ لیکن کابل میں ایک بم دھماکے میں امریکی فوجی سمیت 11 افراد کی ہلاکت کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک امن مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ہماری خواہش ہے کہ فریقین مذاکرات کی جلد بحالی کی طرف راغب ہوں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ہماری خواہش ہے کہ فریقین مذاکرات کی جلد بحالی کی طرف راغب ہوں۔

امریکہ کی جانب سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی منسوخی کے بعد طالبان مسلسل علاقائی طاقتوں اور افغانستان کے پڑوسی ممالک کی قیادت سے رابطے کر رہے ہیں اور اس سلسلے کا یہ اُن کا چوتھا دورہ ہے۔

اس سے قبل حالیہ چند روز کے دوران طالبان رہنماؤں نے روس، چین اور ایران کا بھی دورہ کیا تھا۔

امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ طالبان وفد کی اُن سے ملاقات ہوسکتی ہے۔

جمعرات کو طالبان رہنماؤں سے ملاقات کے دوران شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ برادرانہ تعلقات، مذہبی ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر اُستوار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چالیس برسوں سے افغانستان میں عدم استحکام کا خمیازہ دونوں ملک یکساں طور پر بھگت رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان صدق دل سے سمجھتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور افغانستان میں قیام امن کے لیے 'مذاکرات' ہی مثبت اور واحد راستہ ہے۔

شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ اُنہیں خوشی ہے کہ آج دنیا افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کی تائید کر رہی ہے۔

افغان طالبان کے اعلیٰ سطح کے وفد نے افغان امن عمل میں پاکستان کے مصالحانہ کردار کی تعریف بھی کی۔

یاد رہے کہ افغان طالبان کا وفد ملا عبدالغنی برادری کی سربراہی میں بدھ کی شب پاکستان پہنچا ہے۔

طالبان کے دوحہ آفس کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق طالبان کے وفد میں مذاکراتی ٹیم کے رہنماؤں سمیت پولیٹیکل آفس کے سینئر ارکان شامل ہیں اور یہ وفد چھ اکتوبر تک پاکستان میں قیام کرے گا۔

انھوں نے کہا کہ طالبان وفد کی پاکستان آمد کا کوئی ایک ایجنڈا نہیں ہے۔ اس دورے کے دوران ​امن مذاکرات، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال، افغان مہاجرین کے مسائل اور دوطرفہ تعلقات پر بات چیت ہوگی۔

XS
SM
MD
LG