رسائی کے لنکس

افغان مہاجرین: 'افغانستان میرے لیے قید خانہ ہو گا'


"میں پانچ بچوں کی ماں اور بیوہ ہوں اب میری مجبوری ہے کہ مجھے افغانستان جانا پڑے گا نہ میں نے پہلے کبھی وہ ملک دیکھا نہ میرے بچوں نے، میں انجان ملک میں کس کے ساتھ جاؤں؟ وہاں کیسے اپنی زندگی گزاروں گی؟ اس سے اچھا تو یہ تھا کہ میں اورمیرے بچے یہیں مر جائیں۔"

یہ کہنا ہے 42 سالہ سلمی کا جو افغانستان جانے کے لیے ابھی تک ذہنی طور پر تیار نہیں۔

پاکستانی حکومت کی جانب سے غیر قانونی مہاجرین کے لیے رضاکارانہ انخلا کا وقت 31 اکتوبر کو اختتام پذیر ہو چکا۔ اکتوبر میں دی جانے والی اس ایک ماہ کی مہلت کے دوران ہزاروں افغان پناہ گزینوں نے افغانستان نقل مکانی کی۔

وفاقی نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق اب تک ملک بھر سے ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد غیر قانونی افغان مہاجرین اپنے وطن لوٹ چکے ہیں۔ لیکن اب بھی لاکھوں غیر قانونی افغان پناہ گزین پاکستان میں موجود ہیں جو اس مہلت کا فائدہ نہیں اٹھا سکے۔

پاکستان میں اس وقت 14 لاکھ رجسٹرڈ جب کہ 17 لاکھ سے زائد غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین مقیم ہیں۔ حکومت کے اس اعلان کے بعد سے طورخم اور چمن سرحد پر اس وقت سینکڑوں بسیں، ٹرک، پناہ گزینوں اور ان کے سامان سے لدے سرحد پار کرنے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قائم کمیٹی دفتر برائے افغان مہاجرین میں افراتفری کا عالم ہے۔ ایک بڑے سے ہال میں تین جگہوں پر بیٹھے کمیٹی کے اراکین 'تصدیق مہاجرت' کے لیٹر جاری کر رہے تھے۔

اس لیٹر کو لینے کے لیے آنے والے اتنے زیادہ لوگ تھے کہ اس کمرے میں سانس لینا بھی محال تھا۔ مردوں سے بھرے اس ہال نما کمرے میں بمشکل پانچ خواتین الگ ہی دکھائی دے رہی تھیں جنہیں دیکھ کر مجھے یہ محسوس ہوا کہ شاید رش کے سبب ان کے گھر کے مردوں نے انہیں لیٹر حاصل کرنے کا ٹاسک دے رکھا ہو لیکن ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔

'بیٹے نے آ کر کہا کہ اب ہمیں افغانستان جانا ہو گا'

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سلمی نے بتایا کہ چھ سال قبل ان کے شوہر کی بیماری کے سبب وفات ہو گئی تھی تب سے اب تک وہ ہی اپنے بچوں کو کام کاج کر کے پال رہی ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا جس کی عمر 15 سال ہے وہ سبزی منڈی میں لوڈر کا کام کرتا ہے۔

سلمی کے مطابق "میرے بیٹے کو اس کے مالک نے کہا کہ تم فوراً افغانستان چلے جاؤ تم یتیم ہو اگر تمہیں پولیس نے جیل میں ڈال دیا تو تمہاری ماں تمہیں نکالنے کے لیے کہاں دھکے کھائے گی۔ میرے بیٹے نے مجھے آ کر بتایا کہ ہمیں اب افغانستان جانا ہو گا۔ اب میں یہ لیٹر لینے آئی ہوں لیکن پریشان ہوں کہ ہم کیسے انجان ملک میں جائیں گے میرے بچے بھی چھوٹے ہیں اور ہمارا کوئی جان پہچان والا ہمارے ساتھ نہیں جا رہا۔"

ہال میں شدید رش اور مردوں کی دھکم پیل سے بچنے کے لیے دیوار سے سہارا لے کر کھڑی روشن بی بی کی آنکھوں میں مسلسل نمی بتا رہی تھی کہ وہ یہ سب دیکھ کر پریشان ہیں۔ دھول مٹی سے اٹے سیاہ برقعے اور چہرے کو نقاب سے چھپائے روشن بی بی اپنی پڑوسن کے ہمراہ اتحاد ٹاؤن سے اس دفتر پہنچی تھیں۔

"میں آٹھ ماہ کی حاملہ ہوں میرے پانچ بچے ہیں میں کیسے یہ سفر کروں گی راستے میں اگر مجھے یا میرے ہونے والے بچے کو کچھ ہو گیا تو کیا ہو گا؟ سرکار کیوں اتنی بے رحم ہو گئی ہے جو ہمیں نکال رہی ہے ہم نے ان کا کیا بگاڑا ہے۔" یہ کہتے ہوئے روشن رونے لگیں۔

روشن کو روتا دیکھ کر ان کی پڑوسن نے بتایا کہ وہ ان کے ساتھ اس لیے آئی ہیں کہ ان کے شوہر کو پولیس نے پکڑ لیا تھا جنھیں روشن نے قرضہ لے کر پولیس کو پیسے ادا کر کے چھڑوایا ہے۔

اُن کے بقول اس لیے روشن انہیں اب کہیں بھی باہر نہیں جانے دے رہیں اپنی طبیعت کی خرابی کے باوجود وہ اس حالت میں رکشے میں بیٹھ کر یہاں یہ لیٹر لینے آئی ہیں۔

'یہاں تو ایک وقت کا کھانا مل جاتا ہے نجانے وہاں کیا ہو گا'

رقیہ بانو کے چار بچوں میں سے دو ذہنی امراض سے دوچار ہیں ان کے شوہر اپاہج بھی ہیں اور قوت گویائی سے محروم بھی۔ رقیہ بھی اتحاد ٹاون کی رہائشی ہیں جو کڑھائی کر کے اپنے گھر کا گزر بسر کرتی ہیں۔

رقیہ کے بقول "میرا شوہر بستر سے لگا ہوا ہے میں اپنے بچوں کو پال رہی ہوں ہم ایک وقت کا کھاتے ہیں تو ایک وقت بھوکے رہتے ہیں۔"

"کبھی گھر بیٹھے کام مل جاتا ہے کبھی نہیں بھی ملتا اب حکومت ہمیں افغانستان جانے کا کہہ رہی ہے۔ یہاں تو مجھے کام کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا نصیب ہو جاتا ہے۔ وہاں جا کر میں کیا کروں گی؟"

"مجھ جیسی عورت کے لیے افغانستان تو قید خانہ ہو گا کیوں کہ نہ تو میں وہاں کما سکوں گی نہ ہی کام کے لیے باہر نکل سکوں گی۔"

رقیہ کے بقول "کراچی کا تو مجھے پتا ہے کہ گھر بیٹھے کڑھائی سلائی کا کام کیسے لے سکتے ہیں۔ وہاں کا تو مجھے کچھ بھی نہیں پتا ابھی بھی میں لوگوں سے منت سماجت کر کے یہاں پہنچی ہوں نہ جانے آگے کا سفر کیسے ہو گا؟"

رقیہ کے مطابق ان کے پاس بسوں میں جانے کے لیے کرائے کے پیسے بھی نہیں ہیں وہ افغان کمیٹی سے ملنے والے لیٹر کو پڑھ بھی نہیں سکتی تھیں۔ وہ یہ جاننا چاہتی تھیں کہ اس لیٹر کو لے کر اگر وہ افغانستان جائیں گی تو کیا انہیں کوئی امداد یا رہنے کے لیے مکان ملے گا یا نہیں؟ لیکن ابھی رقیہ کے لیے اس سے بھی بڑی مشکل پاکستان سے نکلنے کے لیے درکار وسائل کی ہے۔

عام پاکستانی افغان مہاجرین کی بے دخلی پر کیا سوچتے ہیں؟

اس وقت سوشل میڈیا پر اس فیصلے پر زیادہ تر آنے والا ردِعمل حکومت کے اس فیصلے کے حق میں نظر آتا ہے۔ بہت سے پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت اس وقت جس دباؤ کا شکار ہے اس میں ایسے غیر قانونی مہاجرین کا ملک سے چلے جانا معیشت کو درپیش مسائل کو کم کرنے میں کسی حد تک بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔

ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم توقیر اکرم کہتے ہیں کہ غیر قانونی افغان مہاجرین ملک کی معیشت اور وسائل پر بوجھ ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آپ کراچی شہر میں دیکھیں کچھ مخصوص علاقے ہیں جو ان کے زیرِ اثر ہیں جو ہمیشہ سے نو گو ایریاز رہے ہیں اور جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ ہیں۔ جب ان کا دل کرتا ہے یہ احتجاج کے نام پر علاقے اور سڑکیں بند کر دیتے تھے۔ اب جب حکومت کی جانب سے سختی ہوئی ہے تو کچھ بہتری نظر آرہی ہے۔ 35 سے 40 سال مہمان نوازی کے لیے بہت ہوتے ہیں اب انہیں اپنے وطن لوٹ جانا چاہیے۔

حنا خان شعبہ تدریس سے تعلق رکھتی ہیں ان کے مطابق، مہاجرین کہیں بھی ہوں انھیں ایک عام شہری کی طرح ٹریٹ نہیں کیا جاتا۔

اُن کے بقول مانا کہ یہ مہاجرین چار دہائیوں سے یہاں ہیں اور ان کے نام پر آنے والی ہر حکومت کو کثیر فنڈز بھی ملے۔ لیکن ان مہاجرین کا حال سب کے سامنے ہے۔ ان کے بچے شہر کا کوڑا کرکٹ اٹھاتے ہیں اور بڑے بھی چھوٹے موٹے کام کر رہے ہیں۔

انھیں اگر تعلیم اور شعور ملتا تو آج حالات الگ ہوتے۔ ایک جانب وہ جنگ زدہ ملک کے ستائے ہوئے تھے دوسری جانب جہاں پناہ ملی وہاں بھی ان کا حال اور مستقبل بہتر نہ ہوا۔ حکومت کو انھیں رجسٹرڈ کرنا چاہیے تھا یہ غلطی حکومت کی ہی ہے اب جب انھیں فنڈنگ نہیں مل رہی تو انھیں ان مہاجرین کو بے دخل کرنے کا خیال آ گیا۔

'یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا'

علی حسن کے مطابق، حکومت کا فیصلہ درست ہے یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ پاکستان کی معاشی حالت اس قابل نہیں کہ وہ 30 لاکھ سے زائد مہاجرین کا بوجھ اٹھا سکے۔ لیکن یہ فیصلہ چوں کہ ایک نگراں حکومت نے لیا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ آنے والی حکومت اس فیصلے پر قائم رہتی ہے یا نہیں۔ اگر اس پر کام نہ جاری رکھا گیا تو ان سب کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اُن کے بقول افغان مہاجرین کی بے دخلی کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے بھی احتجاج کیا گیا جس میں شریک لوگوں کا مؤقف تھا کہ وہ افغان مہاجرین جو پی او آر (پروف آف رجسٹریشن) رکھتے ہیں انھیں بھی پکڑ کر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے جو کہ غیر قانونی عمل ہے۔ خاص کر انھوں نے بچوں کو حراست میں لیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سماجی رکن اور وکیل سارہ ملکانی کا کہنا تھا کہ بہت سے ایسے افراد جو 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آتے ہی وہاں سے نکل کر پاکستان آئے کیوں کہ ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق تھے۔

حکومت کے اس فیصلے سے ان کی زندگی داؤ پر لگ سکتی ہے۔ سارہ کے مطابق، افغانستان میں اس وقت خواتین اور بچوں کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کی قیمت ان مہاجرین کو ادا کرنی پڑ رہی ہے جو پہلے سے ہی پسے ہوئے طبقے میں شامل ہیں۔

'ہم نے اپنا وطن کبھی دیکھا نہیں یہی ہمارا ملک ہے'

"میں یہیں پیدا ہوا میرے تمام بچوں کی پیدائش یہاں کی ہے میرے پاس ان کے برتھ سرٹیفیکیٹس ہیں میرے ماں باپ کی قبریں یہاں ہیں، میں رکشہ چلاتا ہوں اب وہ اپنے رشتے دار کو دے کر چلا جاؤں گا کیوں کہ حکومت ہمیں زبردستی نکال رہی ہے ہم کس سے فریاد کریں؟"

یہ کہنا ہے عبدالباقی کا جو پاکستان کو ہی اپنا ملک سمجھتے ہیں۔

عبدالباقی کے مطابق، جب تک پاکستان کو دنیا ہمارے نام پر مدد دے رہی تھی ہم صحیح تھے اب جب وہ مدد ختم ہو گئی تو ہم غیر بھی ہو گئے اور غیر قانونی بھی۔

اُن کے بقول "ہم بھی تمہاری طرح کے کلمہ گو ہیں اس ملک میں پیدا ہوئے پھر ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟ حکومت کی لڑائی اگر طالبان سے ہے تو اس میں میرے بچوں کا اور دوسرے بچوں کا کیا قصور ہے؟"

یہ وہ شکوے گلے ہیں جس کا جواب کسی کے پاس نہیں، لیکن افغان مہاجرین اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے یہ سوالات ضرور کر رہے ہیں۔

اب جب حکومت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ غیر قانونی افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کردے گی اور ایسے تمام مہاجرین کو پکڑ کر ہولڈنگ کیمپوں میں منتقل کرے گی جہاں سے انھیں ملک بدر کیا جائے گا۔ تو بہت سے افغان مہاجرین اس طرح کی بے دخلی کے ڈر سے اپنے گھر، کاروبار کم قیمت پر یا پھر ایسے ہی اپنے جاننے والوں کے سپرد کر کے سفر پر نکل چکے ہیں۔

لیکن ان سب میں رقیہ بانو، سلمی اور روشن بی بی کے گھر میں کوئی ایسا نہیں جو یہ سارے انتظامات کر کے انھیں صرف سفر کے آغاز کی اطلاح دے سکے۔ انھیں یہ ہجرت موت سے زیادہ مشکل اور اذیت ناک دکھائی دے رہی ہے۔

حکومتِ پاکستان کا یہ مؤقف ہے کہ مہاجرین کی آڑ میں بعض افغان شہری پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں، لہذٰا پاکستان کی قومی سلامتی سب سے اہم ہے۔

حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے بے دخلی کے بعد افغان شہریوں کو قانونی طریقے سے پاکستان آنے کی اجازت ہو گی۔ تاہم بغیر ویزے یا پاسپورٹ کے اب کسی افغان شہری کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔

فورم

XS
SM
MD
LG