رسائی کے لنکس

نوالنی کی موت؛ 'یہ روس میں اپوزیشن کے لیے بڑا نقصان ہے'


روس سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں الیکسی نوالنی کو ان کی جمہوری جدوجہد پر خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔
روس سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں الیکسی نوالنی کو ان کی جمہوری جدوجہد پر خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ چار برس پہلے کی بات ہے جب روس میں صدر ولادیمیر پوٹن کو للکارنے والے اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی سے پوچھا گیا کہ اگر انہیں قتل کر دیا گیا تو روسیوں کو کیا کرنا چاہیے؟

اپنی زندگی پر دستاویزی فلم بنانے والوں کے اس سوال کے جواب میں نوالنی نے کہا تھا ’’آپ کو شکست ماننے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اگر وہ مجھے قتل کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم غیر معمولی طور پر مضبوط ہیں اور ہمیں اپنی اس قوت کو استعمال کرنا ہو گا۔‘‘

روس کے جیل خانہ جات کے ادارے نے جمعے کو جیل میں نوالنی کی موت کا اعلان کیا تھا جہاں وہ شدت پسندی پھیلانے کے الزامات میں 19 برس قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ یہ اطلاع موصول ہونے کے بعد دنیا بھر سے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ نوالنی کو قتل کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق نوالنی کے ترجمان کے سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے بیان کے مطابق ان کی والدہ اور وکلا نوالنی کی میت دیکھنے کے لیے مردہ خانہ پہنچے تھے۔ لیکن اںہیں اس تک رسائی نہیں دی گئی ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کے ایک وکیل کو باقاعدہ دھکے دیے گئے ہیں اور موقع پر موجود عملہ یہ جواب دینے کے لیے تیار نہیں کہ نوالنی کی نعش وہاں موجود ہے یا نہیں۔

دوسری جانب نوالنی کی بیوہ یولیا نوالنایا پیر کو یورپی یونین کی فارن کونسل کے اجلاس میں شریک ہوں گی۔

یورپی یونین کے فارن پالیسی چیف جوزف بورل نے کہا ہے کہ کونسل کے اجلاس میں نوالنی کی جمہوریت کی بحالی اور آزادی کے لیے خدمات کا اعتراف کریں گے اور انہیں خراجِ تحسین پیش کریں گے۔

نوالنی کی بیوہ یولیا نوالنایا پیر کو یورپی یونین کی فارن کونسل کے اجلاس میں شریک ہوں گی
نوالنی کی بیوہ یولیا نوالنایا پیر کو یورپی یونین کی فارن کونسل کے اجلاس میں شریک ہوں گی

نوالنی کی جیل میں ہلاکت کے بعد اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اب روس میں اپوزیشن کی آئندہ حکمتِ عملی کیا ہو گی۔

اپوزیشن کیا کرے گی؟

روس میں حکومت کے ناقدین، وفاداریاں بدلنے والے جاسوس اور تحقیقاتی صحافی مختلف طریقوں سے حملوں میں قتل ہوتے رہے ہیں۔ جیل میں نوالنی کے قتل کی صورت میں روس کی اپوزیشن اپنے اہم ترین رہنما سے محروم ہو گئی ہے۔

روس میں اپوزیشن کی صورتِ حال یہ ہے کہ اس کے اکثر رہنماؤں کی یا تو موت ہو چکی ہے یا وہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں یا جیلوں میں قید ہیں۔

باقی ماندہ اپوزیشن گروپس روس کے نظام اور اس کی قیادت کے بارے میں مختلف فکر رکھتے ہیں۔

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ آئندہ ماہ ہونے والے روس کے انتخابات میں ایسا کوئی برائے نام امیدوار بھی چھٹی بار منتخب ہونے کے لیے الیکشن لڑنے والے صدر پوٹن کے مقابلے میں نہیں ہے۔

اختلاف کا خاتمہ؟

نوالنی کے منظر سے ہٹنے کے بعد کئی لوگوں کا خیال ہے کہ روس میں سیاسی حق اور حکومت کے خلاف اٹھنے والی کوئی آواز باقی نہیں بچی۔

صدر پوٹن کی مخالفت کی وجہ سے گزشتہ دہائی میں طویل عرصے تک جیل کاٹنے والے سابق بزنس ٹائیکون میخائیل خودروکوسکی کا کہنا ہے الیکسی نوالنی بہت نمایاں اور کرشماتی لیڈر تھے۔ وہ لوگوں کو تبدیلی پر آمادہ رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نوالنی کی موت روس میں اپوزیشن کے لیے غیر معمولی نقصان ہے۔

یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا میں سیاسیات کے پروفیسر گرائیمی رابرٹسن صدر پوٹن اور روس کی معاصر سیاست پر کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روس کی اپوزیشن کو سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ وہ چھوٹے لبرل حلقوں سے نکل کر بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل نہیں کر سکی ہے۔

لندن میں مقیم خودور کوسکی ان متعدد روسی رہنماؤں میں شامل ہیں جو نچلی سطح پر متحرک جنگ مخالف گروپ اور جلا وطن اپوزیشن رہنماؤں کا اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان اہم شخصیات میں شطرنج کے بین الاقوامی چیمپئن گیری کیسپروف، میخائل کیسینوف اور سابق روسی وزیرِ اعظم ولادیمیر کارا مرزا جونیئر بھی شامل ہیں۔ کارا مرزا اس وقت یوکرین پر روسی حملے پر تنقید کے باعث غداری کے الزامات کے تحت 25 برس قید کاٹ رہے ہیں۔

لیکن نوالنی اور ان کی قائم کردہ اینٹی کرپشن فاؤنڈیشن اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔

اپوزیشن رہنما خودروکوسکی نے نوالنی کی موت سے قبل اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ اینٹی کرپشن فاؤنڈیشن کے لوگوں کو مسلسل سمجھاتے رہے ہیں کہ اگر ہم سب صرف ٹی وی کیمروں کے بجائے حقیقی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مل جائے تو بہت بڑی پیش رفت ہو سکتی ہے۔

نوالنی روس کے وہ پہلے اپوزیشن رہنما تھے جنھوں نے روس میں حزبِ اختلاف کے لیے قومی اتحاد تشکیل دیا تھا تاہم کئی اپوزیشن گروپس ایسے بھی ہیں جو نوالنی یا ان کی تنظیم کو پسند نہیں کرتے۔

الیکسی نوالنی کی موت سے قبل ان کے حامیوں اور دیگر اپوزیشن گروپس کے لوگوں کے درمیان آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات میں پوٹن کے مقابلے کی حکمتِ عملی پر شدید اختلافات اور بحث و مباحثہ ہوا تھا۔ یہ گرما گرم بحثیں عوامی مذاکروں اور سوشل میڈٰیا پر ہوئیں۔

پوٹن کی طاقت

ایک جانب روس کی اپوزیشن اختلافات کا شکار ہے تو دوسری طرف پوٹن اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط تر کرتے جا رہے ہیں۔ وہ ایک ایک کر کے اختلافی آوازوں کو خاموش کر رہے ہیں، یوکرین جنگ کے مخالفین کو قید میں ڈال رہے ہیں اور آزاد میڈیا کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔

بیلاروس کے لیے سابق برطانوی سفیر اور لندن کے تھنک ٹینک انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز میں روس کے امور کے لیے سینئر فیلو نائجل گولڈ ڈویز کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے درمیان اختلافات سے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چاہے اپوزیشن متحد ہو جائے تو روس کی ریاست جس طرح اختلافی آوازوں کو دبا رہی ہے، کم از کم فوری طور پر یہ اتحاد بھی زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے گا۔

پوٹن کے اقتدار کی تین دہائیاں

پوٹن کم از کم چھ برس مزید اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہو گا وہ اقتدار میں اپنی تین دہائیاں پوری کریں گے۔

روس کے باقی ماندہ حزبِ اختلاف کے رہنما اور ایکٹوسٹ جن کی بڑی تعداد بیرونِ ملک مقیم ہے، اس بات کے لیے فکر مند ہیں کہ اب روس میں حکومت کو کیسے چیلنج کریں گے۔ اس کے لیے انہیں روس کے اندر ریاستی پروپیگنڈے کا توڑ کرنا ہے اور پوٹن کے مقابلے میں مستقبل کا متبادل وژن لوگوں تک پہنچانا ہے۔

یہ ایک انتہائی دشوار چیلنج ہے جس کا سامنا کرنے میں نوالنی کو بھی مشکل کا سامنا تھا جب وہ فروری 2021 میں جرمنی سے زہر خورانی کا علاج کرانے کے بعد روس واپس پہنچے تھے۔ نوالنی خود کو اعصاب شکن زہر دینے کے لیے روس کی حکومت کو ذمے دار قرار دیتے تھے۔

نوالنی کی واپسی اور ان کی قید کے کچھ عرصے بعد ہی ان کی ٹیم نے روس میں کرپشن سے متعلق سوشل میڈیا پر تحقیقات کی تفصیل جاری کی تھی جسے لاکھوں صارفین نے دیکھا تھا۔ اس کے بعد روس میں کئی مقامات پر کرپشن کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جسے پولیس نے بری طرح کچل دیا تھا اور ہزاروں مظاہرین کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔

بعدازاں نوالنی کی ٹیم نے کرپشن سے متعلق تحقیقی رپورٹس سامنے لانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ تاہم مظاہرے چھوڑ کے اپنی آواز لوگوں تک پہنچانے کے دیگر طریقے استعمال کرنا شروع کردیے۔

مشکلات اور امید

رابرٹسن کا کہنا ہے ک نوالنی کا ہاتھ عوام کی نبض پر تھا۔ وہ اور ان کی ٹیم روس میں کرپشن سے متعلق تحقیقاتی رپورٹس پھیلا کر فضا بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔ لیکن ان کی یہ کوششیں کسی سیاسی تبدیلی کا محرک نہیں بن سکیں۔

ان کے بقول، اکثر روسی جانتے ہیں کہ حکومت کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے اور اشرافیہ کرپٹ ہے۔ لیکن انہیں کوئی اور متبادل نظر نہیں آتا۔

نوالنی کو قید کرنے کے بعد سے روس کی حکومت نے گزشتہ تین برسوں میں کئی مزید ایسے قوانین متعارف کرائے ہیں جن سے آزادیٔ اظہار پر عائد قدغنوں میں اضافہ ہوا ہے اور عام ناقدین کو بھی دہائیوں جیل میں رکھنے کی راہ ہموار کی گئی ہے۔

زیادہ تر اپوزیشن رہنما جلا وطن ہیں اور نوالنی کے بعد ان جیسا کوئی نمایاں رہنما حکومت کی مخالفت کے لیے میدان میں نہیں ہے۔

حالات مشکل ضرور ہیں لیکن جلا وطن روسی سیاست دان پُر عزم ہیں کہ جمہوریت کے لیے ان کی امید نوالنی کی موت سے ختم نہیں ہوجائے گی۔

اپوزیشن رہنما خودروکوسکی کا کہنا ہے کہ پوٹن کو سمجھنا ہو گا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو تو مار سکتے ہیں لیکن جمہوریت کے لیے کوششیں کرنے والوں کے خیالات کو قتل نہیں کرسکتے۔

اس تحریر کے لیے مواد ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’اے ایف پی‘ سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG