رسائی کے لنکس

ترکی میں افغان طالبان کا دفتر کھولنے کی تیاریاں


ترکی میں افغان طالبان کا دفتر کھولنے کی تیاریاں
ترکی میں افغان طالبان کا دفتر کھولنے کی تیاریاں

ترکی کے وزیرِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان کے لیے ترکی میں ایک آفس کھولنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ترکی کے حالیہ دورے میں پاکستان کے صدر نے اپنے ترک ہم منصب کے ساتھ مل کر یہ عہد کیا کہ افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے لیے سیاسی اقدامات کی حمایت کی جائے گی۔ ترکی کے پاکستان اور افغانستان دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں ۔ لہٰذا مذاکرات شروع کرنے کے عمل میں اسے اہم مقام حاصل ہے۔

ترکی نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے طالبان عسکریت پسندوں کے لیے ایک سیاسی دفتر کی میزبانی کرنے کو تیار ہے تا کہ افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات ہو سکیں۔ ایک گمنام افغان عہدے دار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ دفتر کے لیے منصوبہ بندی پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔

بدھ کے روز پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ترکی کے صدر عبداللہ گل نے جنگ سے چور افغانستان کو مستحکم کرنے کے اقدامات کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ مسٹر گل نے کہا کہ ان اقدامات میں ایسی کوششیں شامل ہیں جن سے طالبان کے ساتھ بات چیت بہتر انداز سے ہو سکے۔ ’’افغانستان کے مسئلے میں ہماری دلچسپی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ہم ہر ایسی سرگرمی میں حصہ لیں گے جس سے امن کو فروغ ملتا ہو اور جس کا مقصد وہاں مستقل امن قائم کرنا ہو۔ ہمیں وہاں نہ صرف جنگ میں دلچسپی ہے بلکہ ہم وہاں افغان عوام کی زندگیاں معمول کے مطابق لانے میں بھی مدد دینا چاہتے ہیں‘‘۔
ترک وزیرِ خارجہ احمد ڈاوتوگلو (Ahmed Davutoglu) نے پیر کے روز تصدیق کی کہ اُنھوں نے گذشتہ ماہ افغانستان کے سابق صدر برہان الدین ربانی کے ساتھ بات چیت کی تھی جو اس امن کونسل کے سربراہ ہیں جو افغان حکومت نے سیاسی حل کی تلاش کے لیے قائم کی ہے۔

ترکی کے افغانستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ مضبوط تعلقات رہے ہیں اور اس نے ان تعلقات کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کے لیے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ ترکی کے کئی سو فوجی نیٹو کی قیادت میں آئیساف (ISAF) فورسز کے ساتھ افغانستان میں تعینات ہیں۔ تا ہم استنبول کی قادرحاص یونیورسٹی (Kadir Has University) میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ثولی اوزیل کہتے ہیں کہ چونکہ یہ فوجی مکمل طور سے غیر فوجی رول ادا کر رہے ہیں اس لیے تمام فریق ترکی کو اب بھی غیر جانب دار سمجھتے ہیں۔ ’’کابل میں ترکوں کی موجودگی کو جائز سمجھا جاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ملک کے اس حصے میں نسبتاً جو استحکام پایا جاتا ہے اس کی وجہ ترکوں کی موجودگی ہو۔ ذرا سوچیئے، اگر کابل میں صورت حال یہ ہو کہ دوسرے ملکوں کے سپاہی ترکی کی وردیاں پہن رہے ہوں کیوں کہ اس طرح وہ سڑکوں پر زیادہ محفوظ ہو جاتے ہوں تو اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کابل میں ترک سپاہیوں کی ساکھ کتنی اچھی ہے‘‘۔

ترک عہدے دار کہتے ہیں کہ وہ دفتر کھولنے کے لیے افغان حکومت کی طرف سے با قاعدہ درخواست کا انتظار کر رہے ہیں۔ گذشتہ دسمبر میں افغان صدر حامد کرزئی نے استنبول میں اپنے ترک اور پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ سربراہ اجلاس میں اس تجویز کا خیر مقدم کیا تھا۔’’بعض اہم شخصیتوں کے ساتھ جو طالبان تحریک کے نزدیک ہیں میرے ساتھ اس تجویز کے بارے میں تبادلۂ خیال ہوا ہے۔ یہ تجویز کہ ترکی ایسی جگہ ہو جہاں اس قسم کے اجتماعات ہوں، جہاں مصالحت اور یکجہتی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے نمائندگی کے انتظامات کر دیے جائیں، زیرِ بحث آ چکی ہے۔ اگر ترکی بکمال مہربانی ایسی جگہ فراہم کردے، تو ہمیں یعنی حکومت افغانستان کو بڑی خوشی ہوگی‘‘۔

فی الحال تو طالبان کی طرف سے مختلف قسم کے پیغامات آ رہے ہیں کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہوں گے یا نہیں۔ لیکن اطلاعات کے مطابق انقرہ اپنا پورا سفارتی اثر و رسوخ استعمال کر رہا ہے تا کہ اس تنازعے کا کوئی سیاسی حل نکل آئے۔ افغانستان میں نیٹو کی فوج کے سابق سویلین سربراہ ہیکمیٹ سٹین (Hikmet Cetin) کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ بات کرنا ضروری ہے۔ ’’میں پوری طرح متفق ہوں کہ ان کے ساتھ کچھ بات چیت ہونی چاہیئے کیوں کہ وہ وہاں موجود ہیں۔ ہمیں طالبان کو افغانستان اور پاکستان میں ایک اہم عنصر کے طور پر قبول کرنا ہو گا اور ہم جو بھی طریقہ چاہیں، ہمیں ان کے ساتھ معاملہ کرنا ہو گا۔ خاص طور سے ان کے ساتھ جنھوں نے کوئی جرم نہیں کیے ہیں۔ اور اگر افغان حکومت خود مصالحت کے لیے تیار ہو اور فوج بھی اس کی مدد کرتی ہو، تو صورت حال بہت بہتر ہو جائے گی‘‘۔

مبصرین کہتے ہیں کہ نیٹو کی قیادت میں جو فوجیں افغانستان میں موجود ہیں ان میں اس قسم کے جذبات پھیلتے جا رہے ہیں۔ کچھ ہی دن کی بات ہے کہ طالبان کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔ ترکی سخت کوشش کر رہا ہے کہ اسے اپنے ملک میں اس قسم کے مذاکرات منعقد کرنے کا موقع ملے۔

XS
SM
MD
LG