رسائی کے لنکس

بھارت: ٹوئٹر کو متنازع نقشے کی اشاعت پر ایک اور امتحان کا سامنا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سماجی رابطے کی ویب سائٹ امریکی کمپنی ٹوئٹر اور بھارتی حکومت کے درمیان نوک جھونک بڑھتی جا رہی ہے۔

ریاست اترپردیش کی پولیس نے ایک بار پھر ٹوئٹر انڈیا کے بھارت کے مینیجنگ ڈائریکٹر منیش مہیشوری کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ اس بار یہ ٹوئٹر کی ویب سائٹ پر بھارت کا متنازع نقشہ دکھانے کی وجہ سے شکایت درج کی گئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق ٹوئٹر نے اس نقشے میں جموں و کشمیر اور لداخ کو بھارت سے الگ ایک دوسرے ملک کے طور پر دکھایا تھا۔ اس پر ٹوئٹر صارفین نے سخت اعتراض کیا اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اس تنازع کے بعد ٹوئٹر ’ٹوئپ لائف‘ سیکشن میں شائع ہونے والا مذکورہ نقشہ ہٹا کر معذرت کرلی ہے۔

ٹوئٹر کے خلاف دائیں بازو کی ہندوتوا نواز تنظیم ’بجرنگ دَل‘ کے ایک لیڈر پروین بھاٹی کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔یہ مقدمہ مختلف طبقات کے درمیان نفرت اور دشمنی پیدا کرنے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے قانون کے تحت درج کیا گیا ہے۔

بجرنگ دل کے لیڈر نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ ٹوئٹر نے جان بوجھ کر غلط نقشہ دکھایا ہے اور یہ اتفاق نہیں ہے۔ اس سے مجھ سمیت تمام بھارتی شہریوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹر کے اقدام کو بھارت کے ساتھ غداری قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ مقدمہ دار الحکومت دہلی سے تقریباً 100 کلومیٹر دور بلند شہر کے خورجہ نگر تھانے میں درج کیا گیا ہے۔

درج کی گئی ایف آئی آر میں ٹوئٹر کی نیوز پارٹنرشپ ہیڈ امریتا ترپاٹھی کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو اعلیٰ سطح پر دیکھا گیا ہے اور ٹوئٹر سے وضاحت طلب کرنے کے لیے جلد ہی نوٹس جاری کیا جائے گا۔

’نقشہ قابل اعتراض مگر حکومت کا رویہ بھی غلط‘

ٹوئٹر قوانین اورآئی ٹی کے نئے ضابطوں کے ماہر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایڈووکیٹ اے رحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹوئٹر نے بھارت کا جو غلط نقشہ دکھایا وہ قابل اعتراض اور غیر قانونی ہے۔ کسی خودمختار اور آزاد ملک کے کسی متنازع علاقے کے بارے میں کوئی کمپنی اپنے طور پر فیصلہ نہیں کرسکتی۔

ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور ٹوئٹر کے درمیان تنازع کی اصل وجہ یہ ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ ٹوئٹر پر اس کسی پالیسی یا فیصلے پر تنقید کی جائے اور اگر ایسا کوئی ٹوئٹ ہو بھی تو اسے ہٹا دیا جائے۔

اے رحمان کے مطابق بھارت کے نئے آئی ٹی قوانین دستور میں دیے گئے اظہار رائے کی آزادی کے حق سے متصادم ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی حال ہی میں اپنے ایک انتہائی اہم فیصلے میں کہا ہے کہ حکومت پر تنقید یا حکومت کے خلاف احتجاج غداری یا دہشت گردی کی سرگرمی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم اور دیگر وزرا اور بی جے پی کے آئی ٹی سیل والے سب ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں۔ بی جے پی نے اپنے موقف کی تشہیر کے لیے اس کا خوب استعمال کیا اور اس وقت حکومت ٹوئٹر سے بہت خوش تھی۔

ان کے بقول جب حکومت کی پالیسیوں کے خلاف عوام نے ٹوئٹر پر احتجاج شروع کیا اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور دیگر حلقوں کی جانب سے حکومت پر نکتہ چینی شروع کی گئی جس سے دنیا میں مودی حکومت کی بدنامی ہونے لگی تو یہ بات حکومت کو پسند نہیں آئی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسان تحریک کے دوران زرعی قوانین کے خلاف کی جانے والی ٹوئٹس پر بھی حکومت کو اعتراض تھا اور اس کے بعد کرونا وبا کے دوران حکومت کی مبینہ ناکامی پر بھی اس پلیٹ فارم سے خاصی تنقید کی گئی۔

اے رحمن کے بقول حکومت ان باتوں کو برداشت نہیں کر پا رہی ہے۔ اسی لیے اس نے سوشل میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے نئے آئی ٹی قوانین بنائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس نقشے سے متعلق ایسے ہی ایک معاملے میں بھارتی پارلیمانی پینل کے سربراہ نے الزام عائد کیا تھا کہ ٹوئٹر بھارت کی خودمختاری کا احترام نہیں کر رہا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایک نقشے میں ٹوئٹر نے بھارتی زیرِ انتظام علاقے کو چین کا حصہ ظاہر کیا تھا، جس کے بارے میں سماجی میڈیا کے ادارے نے دعویٰ کیا تھا کہ اس غلطی کو فوری طور پر درست کر دیا گیا تھا۔

تیسری بار غلط نقشہ

یہ تیسرا موقع ہے جب ٹوئٹر نے بھارت کے سرکاری نقشے کے برعکس نقشہ دکھایا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر نومبر میں اس نے جموں و کشمیر اور لیہہ کو چین کا حصہ دکھادیا تھا۔

جب اس پر تنازع بڑھا تو ٹوئٹر نے اس پر معذرت کرلی تھی تاہم ایک ماہ کے بعد اس نے لیہہ کو مرکز کے زیر انتظام لداخ کے بجائے مرکز کے زیر انتظام ایک دوسرے خطے جموں و کشمیر کا حصہ بتایا تھا۔

قبل ازیں اترپردیش کی غازی آباد پولیس نے گزشتہ ہفتے ایک معمر مسلم شخص کی متنازع ویڈیو دکھانے پر ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی منیش مہیشوری کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور انھیں غازی آباد ضلع کے لونی تھانے میں حاضر ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔

منیش مہیشوری کے علاوہ مذکورہ ویڈیو ٹوئٹ کرنے کی وجہ سے صحافی رعنا ایوب، صحافی و سماجی کارکن صبا نقوی اور کانگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والے تین رہنماوں کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

’ٹوئٹر کو قانونی تحفظ حاصل نہیں‘

دریں اثنا حکومت کا کہنا ہے کہ چوں کہ ٹوئٹر نے نئے آئی ٹی قوانین پر ابھی تک عمل نہیں کیا ہے لہٰذا اسے ڈیجیٹل میڈیا ہونے کی حیثیت سے جو قانونی تحفظ حاصل تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے۔

حکومت کے ذرائع کے مطابق گزشتہ چند روز میں قانونی ماہرین اور حکومت کے دیگر محکموں کے ساتھ مشاورت کے نتیجے میں حکومت نے ضرورت پڑنے پرعدالت میں یہی موقف پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارت اطلاعات و نشریات کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے کہ ٹوئٹر نے قانونی تحفظ کا حق کھو دیا ہے یا نہیں لیکن حکومت کا یہی موقف ہے کہ ٹوئٹر اپنے تحفظ کا قانونی حق کھو چکا ہے۔

مختلف رپورٹس کے مطابق فیس بک، انسٹا گرام، لنکڈ ان، واٹس ایپ اور ٹیلی گرام وغیرہ جیسی ڈیجیٹل کمپنیوں نے بھارت کے نئے آئی ٹی قوانین پر عمل درآمد کر لیا ہے۔

حکومت نے فروری میں ان قوانین پرعمل کرنے کے لیے تین ماہ کا وقت دیا تھا۔ یہ قوانین 26 مئی سے نافذ ہو گئے ہیں۔

سوشل میڈیا کے ذریعے ذہنی امراض کی نشان دہی
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:21 0:00

ان نئے قوانین میں شکایات درج کرنے کے لیے ایک اہلکار کی تقرری بھی شامل ہے جو کسی بھی ٹوئٹ پر شکایت کیے جانے پر اسے ہٹانے کا مجاز ہوگا۔

ٹوئٹر نے دھرمیندر چتر نامی ایک شخص کو عارضی شکایتی اہلکار کے طور پر نامزد کیا تھا مگر انھوں نے اپنی ذمہ داری سنبھالنے کے کچھ روز کے بعد اتوار کے روز استعفیٰ دے دیا۔

حکومت نے تکنیکی بنیاد پر اس نامزدگی کی مخالفت کی تھی۔ اس کے بعد ٹوئٹر نے ایک امریکی شہری کو شکایت افسر مقرر کیا ہے جس پر حکومت کا کہنا ہے کہ اس عہدے پر کسی بھارتی شہری کا تقرر ہونا چاہیے۔

ٹوئٹر استعمال کرنے والا تیسرا بڑا ملک

بھارت میں ٹوئٹرصارفین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے آئی ٹی سیل ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق 20-2019 میں بھارت میں ٹوئٹر صارفین میں 47 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ اس وقت بھارت میں ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد ٹوئٹر یوزرہیں۔ امریکہ اور جاپان کے بعد بھارت ٹوئٹر استعمال کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG