رسائی کے لنکس

کرونا کے باعث افغانستان، شام اور عراق میں شدت پسند گروہوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے: اقوام متحدہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے تنازعات کے شکار علاقوں بشمول افغانستان، شام اور عراق میں شدت پسند گروہوں داعش اور القاعدہ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ جب کہ متعدد حملوں کے باوجود یہ خطرہ یورپ میں نسبتاً کم ہے۔

شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافے کے حوالے سے خدشات کا انکشاف رواں ہفتے جمعرات کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ماہرین کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

سلامتی کونسل کی رپورٹ میں ماہرین کا کہنا ہے کہ 2020 کے آخری چھ ماہ کے دوران تنازعات کے شکار علاقوں میں شدت پسند گروہوں کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ کیوں کہ وبا نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام میں مشکلات پیدا کی ہیں۔ جب کہ دوسری طرف شدت پسندوں کی آزادنہ نقل و حرکت جاری رہی۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ کئی مقامات جہاں پر وبا کی وجہ سے پابندیاں نرم ہوں گی۔ شدت پسند اچانک حملے کر سکتے ہیں۔ جن کی منصوبہ بندی رپورٹ کے مطابق پہلے سے کی گئی ہے۔

رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ عالمی وبا کی اقتصادی اور سیاسی اثرات کی وجہ سے انتہا پسندی کے رجحان میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کے باعث طویل مدت میں شدت پسند گروہوں کا خطرہ ممکنہ طور بڑھ سکتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام اور عراق کے کئی علاقے شدت پسند گروپ داعش کا مرکز ہیں۔ جب کہ شمال مغربی شام میں ادلب کے علاقے میں القاعدہ سے منسلک گروہوں کی موجودگی باعثِ تشویش ہے۔​

دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ کے مخصوص حالات کی وجہ سے اسرائیل اور بعض عرب ممالک کے تعلقات میں بہتری کی وجہ سے یہاں بھی شدت پسند گروہ القاعدہ او ر داعش کا ردِ عمل سامنے آ سکتا ہے۔

علاوہ ازیں رپورٹ کے مطابق افریقہ کے بعض علاقوں میں بھی شدت پسند گروپ داعش کی کارروائیاں باعث تشویش ہیں۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک افغانستان ہے اور امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس 29 فروری کو معاہدے اور 12 ستمبر کو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان شروع ہونے بین الافغان مذاکرات کے امید افزا پیش رفت کے باوجود افغانستان میں صورتِ حال خراب ہے۔

ماہرین کے مطابق دہشت گردی کی کارروائیاں اور انتہا پسند نظریات خطے اور دنیا کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جاری امن عمل کی کامیابی کی صورت میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 29 فروری کے بعد سے افغانستان میں حملوں کی وجہ سے 600 سے زائد عام شہری اور سیکیورٹی فورسز کے 2500 اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اگرچہ داعش کی طرف سے حملے کرنے کی صلاحیت اور کسی علاقے پر قبضے کا امکان موجود نہیں ہے۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعش نے افغانستان میں کئی بڑے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

تجزیہ کار اور صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان کی موجود صورتِ حال برقرار رہی گی تو دہشت گردوں کا خطرہ موجود رہے گا۔

طاہر خان کا مزید کہنا تھا کہ افغان امن عمل میں پیش رفت سے افغانستان کی صورتِ حال پر مثبت اثر ہو گا۔ لیکن بصورت دیگر افغانستان کی موجودہ صورتِ حال برقرار رہے گی اور دہشت گردی کا خطرہ رہےگا۔

دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالبان اور القاعدہ کے تعلقات میں کسی نمایاں تبدیلی کے شواہد سامنے نہیں آئے۔

افغان امن مذاکرات، کیا ساری رکاوٹیں دور ہو گئیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:14 0:00

رپورٹ میں ماہرین کا کہنا ہے کہ داعش اور القاعدہ دونوں کے لیے افغانستان اب بھی اہم ہے اور امن عمل ان دونوں گروہوں سے خطرے کو کم کرنے کے لیے اہم ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق اگر دوحہ معاہدے کے تحت طالبان اپنے وعدے پورے کریں گے تو القاعدہ کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

اگرچہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ نہ تو افغانستان میں القاعدہ موجود ہے اور نہ ہی ان کے اس گروہ سے تعلقات ہیں ۔لیکن تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اقوامِ متحدہ طالبان کے اس دعوے سے بظاہر مطمئن نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان نے افغانستان میں جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے گزشتہ سال ایک مشروط معاہدے پر دستخط کیے تھے جس مئی 2021 تک افغانستان سے تمام غیر ملکی فورسز کا انخلا مکمل ہونا ہے۔

دوسری جانب طالبان نے اس معاہدے میں یہ یقینی دہانی بھی کرائی تھی کہ وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں القاعدہ یا دیگر ایسے شدت پسند گروہوں کو منظم ہونے کی اجازت نہیں دیں گے جو امریکہ اور یا دیگر ممالک کے لیے خطرہ ہو۔

XS
SM
MD
LG