رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری؛ چمن بارڈر پر دھرنا دیے مظاہرین کے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں؟


چمن کے رہائشی 30 سالہ قدیر گل 10 سال کی عمر ہی سے اپنے والد اور چچا کے ہمراہ پاک افغان سرحد پر اسپن بولدک کے ویش بازار سے سامان لانے اور لے جانے کے روزگار سے وابستہ ہیں۔

لیکن وہ گزشتہ دو ماہ سے بے روزگار ہیں جس کی وجہ چمن اور قلعہ عبداللہ کے ایڈریس والے پاکستانی قومی شناختی کارڈز پر یا افغان حکومت کی جانب سے اپنے شہریوں کو جاری کردہ شناخت نامہ ’تذکرہ‘ کے بجائے پاسپورٹ اور ویزا کو لازمی قرار دینے کا حالیہ فیصلہ ہے۔

پاکستان کی حکومت نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کو لازمی قرار دے دیا تھا۔

حکومت کے اس فیصلے کے خلاف 21 اکتوبر سے پاک افغان سرحد پر واقع باب دوستی نامی سرحدی گیٹ جانے والی سڑک پر جاری ضلع چمن کے مزدوروں، چھوٹے تاجروں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔

مظاہرین نے دھرنے کے ایک ماہ بعد نومبر کے آخر سے پاک افغان شاہراہ بند کر کے دونوں ممالک کے درمیان ہر قسم کی تجارت بھی بند کر رکھی ہے۔

وائس آف امریکہ نے حال ہی میں چمن کے احتجاجی دھرنے کے مقام کے ایک دورے کے دوران قدیر گل سے ملاقات کی جہاں وہ 21 اکتوبر سے روزانہ صبح دھرنے میں شرکت کے لیے آتے ہیں اور رات کو ہی واپس جاتے ہیں۔ مہینے میں ایک دو مرتبہ انہیں دھرنے میں رات بھی گزارنی پڑتی ہے۔

دھرنے میں شریک زیادہ تر شرکا کی تعداد قدیر گل جیسے پاک افغان سرحد پرکام کرنے والے مزدوروں کی ہے جو سرحد کے دونوں پار کندھوں پر سامان لاد کر لاتے لے جاتے ہیں۔ مقامی پشتو زبان میں ان مزدوروں کے لیے ’لغڑی‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

لغڑیوں کو پہلے حکومت نے ہاتھوں میں سامان سرحد پار لے جانے اور لانے کی اجازت دے رکھی تھی تاہم اب ان کے لیے بھی پاسپورٹ اور ویزے کی شرط لازمی قرار دے دی گئی ہے۔

قدیر گل کے بقول ’’سرحد پار جانے کے لیے حکومت کی پاسپورٹ اور ویزا کی پالیسی ضلع چمن کے عوام کے معاشی قتل کے مترادف ہے جنہیں وہ کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔"

وہ کہتے ہیں کہ پہلے دن میں دو تین ہزار روپے سامان کی ترسیل سے کما لیتے تھے. لیکن اب حکومت کی افغان سرحد پر نئی سخت پالیسیوں سے وہ دو ماہ سے بے روزگار ہیں۔

چمن کا دھرنا: کیا ہو رہا ہے؟

دھرنے کو منظم کرنے والے کمیٹی کو ’آل پارٹیز تاجر لغڑی اتحاد‘ کا نام دیا گیا ہے جس کی حمایت بلوچستان کے پشتون خطے میں فعال تقریباً تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے کی گئی ہے۔

سرحد کے کاروبار سے وابستہ ان مزدوروں کی تعداد 20 سے 25 ہزار ہے جن میں اکثریت کا تعلق پاکستان کے سرحدی اضلاع چمن اور قلعہ عبداللہ سے ہے۔ جب کہ سرحد پار افغانستان کے صوبہ قندھار کے سرحدی ضلع اسپن بولدک کے بھی چند ہزار لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔

چمن میں شدید سردی کے باوجود یہ دھرنا 24 گھنٹے جاری رہتا ہے۔ صبح آٹھ بجے سے لے کر ظہر کی اذان تک اس دھرنے میں روزانہ ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں جن میں دھرنے کے منتظمین کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں، تاجر تنظیموں اور مقامی قبائلی عمائدین خطاب کرتے ہیں۔

ظہر اور عصر کی نماز کے وقفے کے بعد سہ پہر کو دھرنے میں دوبارہ لوگ شرکت کرتے ہیں جن کی تعداد صبح کے مقابلے میں کافی کم ہوتی ہے۔

مغرب کی اذان کے ساتھ یہ لوگ واپس اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ البتہ دھرنے کے مقام پر تاجر تنظیموں اور ساری سیاسی جماعتوں نے اپنے خیمے نصب کر رکھے ہیں جہاں روزانہ رات گزارنے کے لیے لوگوں کی ڈیوٹیاں لگائی گئی ہے۔

دھرنے کے مرکزی منتظم حاجی صادق اچکزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’چمن، قلعہ عبداللہ اور قرب و جوار کے اضلاع کی 90 فی صد آبادی کا دارومدار بارڈر سے منسلک کاروبار سے ہے اور اسی لیے چمن کے لوگوں کو پاکستانی شناختی کارڈ پر آنے جانے کی اجازت پرانی طرز پر دی جائے۔‘‘

دھرنے کے اسٹیج کے پاس بھی قائدین کے بیٹھنے کے لیے لگائے گئے خیمے میں دھرنے کے قائدین سے چمن دھرنا مظاہرین اور مطالبات سمجھنے کی کوشش کی۔

ان میں لغڑی اتحاد کے رہنما غوث اللہ اچکزئی اور چھوٹے تاجروں کی تنظیم کے رہنما حاجی صادق اچکزئی سمیت متعدد رہنماؤں نے وائس آف امریکہ سے بات کی۔

ان افراد کے مطابق سرحدی علاقوں کے لوگ صرف شناختی کارڈ یا افغان شناختی دستاویز دکھا کر آزادانہ طور پر آتے جاتے تھے مگر اب 76 برسوں میں پہلی بار پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد کی گئی ہے جسے مقامی عوام مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔

ان کے بقول چمن سے تعلق رکھنے والے تقریباً 10 سے 12 پاکستانی شہریوں کی اسپن بولدک میں دکانیں، موٹر شوروم اور گودام ہیں یہ وہاں کاروبار کر رہے ہیں۔ یہ لوگ روزانہ صبح آٹھ بجے افغانستان جاتے اور شام کو پانچ بجے سرحد بند ہونے سے پہلے پہلے واپس پاکستان آ جاتے ہیں۔

اسی طرح قندھار کے سرکاری دستاویز پر افغان شہری بھی چمن اور قلعہ عبداللہ کی حدود تک داخل ہو سکتے تھے۔

صادق اچکزئی کے بقول ’’سرحد کے دونوں جانب آباد ایک ہی قبائل، زبان اور نسل کے لوگ آباد ہیں جن کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں اور حتیٰ کہ قبرستان بھی مشترکہ ہے۔

غوث اللہ کے بقول ’’چمن کے لوگوں کی آدھی جائیدادیں افغانستان اور آدھی پاکستان میں ہیں اور برطانوی راج میں بھی چمن کے عوام اور قبائل کو افغانستان آنے جانے کی اجازت تھی۔"

دھرنے کے لوگ سیاسی جماعتوں سے بھی نالاں نظر آ رہے ہیں۔

دھرنے میں شریک خان محمد نامی ایک مزدور کا کہنا تھا کہ انتخابات قریب آتے ہی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنما دھرنے کو وقت نہیں دے رہے جس سے مظاہرین بدظن ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں اسلام آباد میں بلوچ یک جہتی کمیٹی کے لانگ مارچ طرز کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے چمن دھرنے کے منتظمین بھی اسلام آباد کی جانب اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے لانگ مارچ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

حکومت ایسا کیوں کر رہی ہے؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیدل آمدروفت اور تجارت کے لیے طورخم اور چمن سب سے بڑی گزرگاہیں ہیں۔ طورخم سرحد پر 2016 میں آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم متعدد کوششوں کے باوجود پاکستانی حکومت چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کے اطلاق کو یقینی نہیں بنا سکی تھی۔

پاک افغان سرحد تقریباً 2600 کلو میٹر طویل ہے جس کا تقریباً 1229 کلو میٹر پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا جب کہ بقیہ حصہ صوبہ بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے۔

یہ فیصلہ پاکستان بالخصوص بلوچستان میں پے درپے رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے تناظر میں لیا گیا۔

یہ فیصلہ اکتوبر میں کوئٹہ میں صوبائی ایپکس کمیٹی کے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے شرکت کی۔

اس اجلاس میں غیر قانونی تارکینِ وطن، خصوصاً افغان شہریوں کو نکالنے اور افغان سرحد پر شناختی کارڈ اور تذکرہ کے بجائے پاسپورٹ اور ویزے کا نظام لاگو کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

چمن میں تعینات ایک عسکری ادارے سے وابستہ ایک سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ پاکستان کے داخلی اور معاشی استحکام کے لیے دونوں ممالک کے درمیان آمدورفت کے لیے یہ اقدام لازمی ہے کیوں کہ کوئی بھی ملک روزانہ کسی دستاویزی ریگولیشن کے بغیر ہزاروں افراد کی آمدرورفت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

مذکورہ افسر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرحد پر رہنے والے قبائل کو سرحد پار آمدروفت کے لیے دی جانے والی رعایت کا غلط استعمال کیا جا رہا تھا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس آڑ میں افغانستان کے باقی علاقوں کے لوگ بھی غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہو رہے تھے جس کا دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اعلیٰ سویلین اور فوجی حکام نے دھرنے کے مظاہرین کو قائل کرنے کی کوششیں کیں مگر ناکام رہے۔

بلوچستان کے نگراں وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی جن کا تعلق بھی سرحدی قصبے توبہ اچکزئی سے ہے نے کہا کہ حکومت کو چمن کے عوام کے معاشی مسائل کا ادراک ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت نے چمن کے مقامی بے روزگار افراد کے لیے خصوصی پیکج شروع کیا ہے جس کے تحت رجسٹرڈ افراد کو 20 ہزار روپے ماہانہ فراہم کیے جائیں گئے۔

چمن کے تاجر کون ہیں اور دھرنے پر کیوں بیٹھے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:57 0:00

ان کا کہنا تھا کہ چمن کے تقریباً 20 ہزار لوگوں کو چھ ماہ تک ماہانہ 20 ہزار روپے دیے جائیں گے اور اس سلسلے میں حکومت نے چھ ارب روپے مختص کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے چمن کے فٹ بال اسٹیڈیم میں قائم کاؤنٹر پر رجسٹریشن جاری ہے اور اب تک 400 افراد اس پیکج کے لیے رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔

سرحدی دروازے کی تعمیر سے لے کر آمدورفت میں سختیاں

چمن کے رہائشی کہتے ہیں کہ 2001 میں افغانستان میں امریکی افواج کی آمد کے بعد سرحد پر آمدورفت کو ریگولرائز کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

اُن کے بقول اس وجہ سے سرحد پر واقع دیہات سب سے زیادہ متاثر ہوئے جن کے عزیز و اقارب سرحد پار مقیم تھے۔ البتہ افغانستان میں جب حامد کرزئی کی قیادت میں 2002 میں افغانستان میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی تو چمن سرحد پر بارڈر کی حیثیت سے باب دوستی دروازے کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔

باب دوستی دروازے کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پاک افغان سرحد پر سرحدی حدود کا تعین کیا جانے لگا جس میں متعدد مکانات، دیہات اور زمینیں دونوں ممالک میں تقسیم ہوئے۔ اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی کی مداخلت پر صوبہ قندھار کے گورنر گل آغا شیرازی کی پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کے بعد پاکستانی حکومت نے دسمبر 2003 میں سرحدی دروازے کی تنصیب شروع کی۔

چمن کے رہائشیوں کہ سرحد پر بابِ دوستی دروازے کی تنصیب کے باوجود شروع کے برسوں میں دونوں اطراف سے لوگ اور گاڑیاں بھی روک ٹوک کے بغیر گزرتی تھیں۔ لیکن 2010 سے پاکستانی حکومت نے پاکستانی شناختی کارڈز اور افغانستان کے 'تذکرہ' نامی سرکاری دستاویز کو سرحد پار کرنے کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG