رسائی کے لنکس

جب تک ضرورت پڑی عراق میں رہیں گے: امریکی فوج


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ترجمان نے بتایا کہ اس وقت عراق میں 5200 امریکی فوجی موجود ہیں جو وہاں عراقی فوج کو تربیت دینے کے علاوہ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں معاونت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔

امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ عراق میں داعش کے قبضے سے آزاد کرائے جانے والے علاقوں میں صورتِ حال معمول پر لانے کے لیے "جب تک ضرورت ہوگی" امریکی فوج وہاں موجود رہے گی۔

شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف قائم بین الاقوامی فوجی اتحاد کے ایک ترجمان اور امریکی فوج کے کرنل شان رائن نے اتوار کو ابوظہبی میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ "جب تک ہم ضروری سمجھیں گے ہم اپنے فوجی دستے وہاں رکھیں گے۔"

ترجمان کا کہنا تھا کہ فوجی موجودگی برقرار رکھنے کا بڑا مقصد عسکری میدان میں داعش کی شکست کے بعد ان علاقوں میں صورتِ حال معمول پر لانے کی کوشش کرنا ہے جس کے لیے امریکی فوج کا برسرِ زمین موجود ہونا ضروری ہے۔

تاہم ترجمان نے کہا کہ اگر نیٹو میں شامل دیگر ممالک عراقی فوج کو تربیت دینے کے لیے اپنے فوجی دستے عراق بھیجنے پر آمادہ ہوں تو وہاں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کی جاسکتی ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ اس وقت عراق میں 5200 امریکی فوجی موجود ہیں جو وہاں عراقی فوج کو تربیت دینے کے علاوہ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں معاونت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔

رواں سال فروری میں نیٹو ممالک کے وزرائے دفاع نے امریکہ کے مطالبے پر عراقی فوج کو تربیت اور مشاورت فراہم کرنے کے لیے عراق میں اپنے مشن کو توسیع دینے پر اتفاق کیا تھا۔

امریکہ نے یہ مطالبہ تین سال کی مشترکہ کوششوں کے بعد داعش کی بیشتر عراقی علاقوں سے پسپائی کے بعد کیا تھا۔

امریکی حکام کا مؤقف تھا کہ داعش کی ان علاقوں میں دوبارہ واپسی روکنے کے لیے عراقی سکیورٹی فورسز کی استعدادِ کار میں اضافہ کرنا ضروری ہے جس کے لیے اتحادیوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

عراقی حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں داعش کے خلاف فتح کا باضابطہ اعلان کیا تھا۔ اس اعلان سے پانچ ماہ قبل عراقی فوج نے بین الاقوامی اتحاد کی مدد سے داعش کی خود ساختہ خلافت کے اہم مرکز موصل کا قبضہ شدت پسندوں سے چھڑا لیا تھا۔

داعش کے خلاف کارروائیوں کے سلسلے میں امریکہ کے دو ہزار فوجی اہلکار شام میں بھی موجود ہیں جو وہاں 'سیرین ڈیموکریٹک فورسز' کی معاونت کر رہے ہیں جن میں اکثریت شامی کردوں کی ہے۔

'سیرین ڈیموکریٹک فورسز' کے جنگجو امریکہ کی مدد سے عراق کی سرحد کے ساتھ واقع داعش کے زیرِ قبضہ باقی ماندہ علاقوں کو شدت پسندوں سے آزاد کرانے میں مصروف ہیں۔

اتوار کو اپنی پریس کانفرنس میں کرنل شان رائن کا کہنا تھا کہ امریکی کوششوں سے 'سیرین ڈیموکریٹک فورسز' اور عراقی افواج کے درمیان براہِ راست رابطے اور تعاون شروع ہوگیا ہے جو اس سے قبل صرف بین الاقوامی اتحاد کے توسط سے ہی ہوتا تھا۔

عراقی فوج نے گزشتہ چند ماہ کے دوران سرحد پار شام میں قائم داعش کے کئی ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی کیے ہیں۔ عراقی فوج نے شام میں یہ فضائی کارروائیاں شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت اور امریکہ کی رضامندی سے کی ہیں۔

اپنی پریس کانفرنس میں کرنل شان رائن نے بتایا کہ شام کے سرحدی علاقوں میں داعش کے زیرِ قبضہ باقی ماندہ علاقوں کو آزاد کرانے کی کارروائیاں شدت پسندوں کی جانب سے بچھائی جانے والی سیکڑوں بارودی سرنگوں کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG