رسائی کے لنکس

عراق، شام پر امریکی فضائی حملوں میں 300 گنا اضافہ


عراق کے شہر موصل میں داعش کے ٹھکانوں پر بین الاقوامی اتحادی کی بمباری کے بعد دھواں اٹھ رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
عراق کے شہر موصل میں داعش کے ٹھکانوں پر بین الاقوامی اتحادی کی بمباری کے بعد دھواں اٹھ رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

بین الاقوامی اتحاد نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے مئی کے مہینے میں شام اور عراق میں داعش کے اہداف پر 225 حملے کیے جو دو ماہ قبل کیے جانے والے حملوں سے 304 گنا زیادہ ہیں۔

امریکہ کی قیادت میں داعش کے خلاف قائم بین الاقوامی اتحاد نے شدت پسند تنظیم کے بچے کچھے جنگجووں کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں اور اتحاد کی جانب سے شام اور عراق میں فضائی حملوں میں رواں سال مارچ کے مقابلے میں 300 گنا اضافہ ہوگیا ہے۔

بین الاقوامی اتحاد نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے مئی کے مہینے میں شام اور عراق میں داعش کے اہداف پر 225 حملے کیے جو دو ماہ قبل کیے جانے والے حملوں سے 304 گنا زیادہ ہیں۔

اتحاد نے رواں سال مارچ میں داعش پر کل 74 حملے کیے تھے۔

امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں میں اضافہ اس بات کا مظہر ہے کہ شام میں امریکہ کی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) نے ایک بار پھر اپنی توجہ وادیٔ فرات میں داعش کے خلاف کارروائیوں پر مرکوز کردی ہے۔

'آپریشن راؤنڈ اپ' کے عنوان سے جاری یہ آپریشن امریکہ کی جانب سے اپنے اتحادیوں - ترکی اور ایس ڈی ایف - کو ایک دوسرے سے لڑائی روکنے اوراپنی کوششیں داعش کو شکست دینے پر مرکوز رکھنے کے کئی ماہ سے جاری مطالبات کے بعد شروع ہوا ہے۔

رواں سال مارچ میں شام کے شمال مغرب میں واقع کرد اکثریتی علاقے عفرین کی بیشتر آبادی ترک فوج اور اس کی حامی ملیشیاؤں کے مسلسل حملوں کے بعد علاقے سے نقل مکانی کر گئی تھی۔

علاقے میں رہ جانے والے بعض افراد کی جانب سے شہر کی حفاظت کرنے کی اپیل پر 'ایس ڈی ایف' کے بہت سے جنگجو علاقے میں پہنچے تھے اور ان کی کئی روز تک ترک فوج اور اس کی حامی ملیشیاؤں کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہی تھیں۔

ترکی کا موقف رہا ہے کہ عفرین کرد علیحدگی پسندوں کی پناہ گاہ بن چکا ہے جو ترکی میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ترک حکومت کے مطابق عفرین پر اس کی فوجی پیش قدمی کا مقصد اپنی سرحد کے ساتھ ساتھ ایک غیر فوجی علاقہ قائم کرنا ہے تاکہ وہاں سے اس کے علاقوں پر حملے نہ ہوں۔

امریکی حکام کا موقف رہا ہے کہ شمالی مغربی شام میں جاری یہ لڑائی داعش کے خلاف مہم سے توجہ ہٹانے کا سبب بن رہی ہے جس کی آڑ میں شدت پسند تنظیم بعض علاقوں میں خود کو دوبارہ منظم کرسکتی ہے۔

تاہم پیر کو امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون' کے ترجمان میجر ایڈرین رینکن نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ 'ایس ڈی ایف' نے عفرین میں اپنے پیشگی حملے روک دیے ہیں اور اس کے جنگجو اب داعش کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں جن میں انہیں بین الاقوامی اتحاد کی فضائی مدد بھی حاصل ہے۔

بین الاقوامی اتحاد کا کہنا ہے کہ اس کی مسلسل کارروائیوں کے باعث شام اور عراق میں داعش کے جنگجووں کی تعداد گزشتہ سال تین ہزار تک رہ گئی تھی۔

لیکن اتحاد کے ترجمان کرنل شان رائن کے مطابق وادیٔ فرات کے طول و عرض میں اب بھی داعش کے جنگجووں کی خاطر خواہ تعداد سرگرم ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کرنل رائن نے کہا کہ ان کے خیال میں وہاں اب بھی داعش کے جنگجووں کی تعداد لوگوں کے اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔

ان کے بقول علاقے میں شدت پسند تنظیم کے جنگجو چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہیں جس کی وجہ سے انہیں تلاش کرنا اور مشکل ہوگیا ہے۔

تاحال یہ واضح نہیں کہ بین الاقوامی اتحاد کی داعش کے خلاف چار سال سے جاری یہ کارروائیاں کب ختم ہوں گی۔

البتہ امریکی وزیرِ دفاع جم میٹس نے پیر کو پینٹاگون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اتحاد میں شامل تمام ممالک متفق ہیں کہ یہ لڑائی اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک شدت پسند تنظیم کی شام اور عراق میں پھیلی خلافت کو مکمل طور پر تباہ نہیں کردیا جاتا۔

گزشتہ ہفتے بین الاقوامی اتحاد کے ایک اور ترجمان کرنل تھامس ویل نے ایک پریس بریفنگ میں واضح کیا تھا کہ بین الاقوامی اتحاد کی کارروائیوں کا مقصد صرف جنگجووں کو ہی نشانہ بنانا نہیں بلکہ داعش کی صلاحیتوں کا بھی خاتمہ کرنا ہے۔

ترجمان نے کہا تھا کہ وہ جنگجووں کی تعداد سے زیادہ داعش کی دوبارہ منظم ہونے، وسائل تلاش کرنے، لوگوں کو متاثر کرنے، اور جنگجووں کو بھرتی کرنے اور تربیت دینے کی صلاحیت سے متعلق تشویش کا شکار ہیں۔

XS
SM
MD
LG