رسائی کے لنکس

امریکہ: آپریشن اسٹریم لائن کو تنقید کا سامنا


لیکن امریکہ کے ہوم لینڈ سیکورٹی کے محکمے کے عہدے دار کہتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں میں سرحد پر غیر قانونی داخلوں کی تعداد میں جو زبردست کمی آئی ہے وہ اسی قانون کی وجہ سے ہے۔

سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ صدر اوباما امیگریشن میں اصلاحا ت پر ایسا سمجھوتہ جس پر دونوں پارٹیاں متفق ہوں، صرف اسی صورت میں حاصل کر سکتے ہیں جب وہ امریکی کانگریس میں ریپبلییکنز کو یہ یقین دلادیں کہ سرحد کو محفوظ بنانے کی کوششیں کامیاب ہوئی ہیں۔ لیکن شہری حقوق اور انسانی حقوق کے گروپس وفاقی حکومت کے اس پروگرام پر نکتہ چینی کر رہے ہیں جن کے بارے میں سرکاری عہدے داروں کا خیال ہے کہ اس سے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کی تعداد کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ اس پروگرام کا نام ہے آپریشن اسٹریم لائن۔

جمعرات کے روز ایک کانفرنس کال میں جس کا اہتمام امریکن سول لبرٹیز یونین، یا اے سی ایل یو نے کیا تھا، انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں، اور قانونی ماہرین نے یو ایس کسٹمز اینڈ بورڈر پروٹیکشن ایجنسی کے پروگرام آپریشن اسٹریم لائن کی مذمت کی۔ اس پروگرام کی ابتدا کئی سال پہلے، ٹیکسس کے سرحدی سیکٹر ڈیل ریو میں کی گئی تھی۔

امریکہ کی جنوبی سرحد کے تمام سیکٹرز اب اس سے ملتے جلتے پروگرام استعمال کرتے ہیں ۔ اس کے تحت امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے ہر فرد پر ایک جرم کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور اسے ایک ڈیٹا بنک میں رجسٹر کر دیا جاتا ہے۔ وفاقی حکام کہتے ہیں کہ اس پروگرام کی بدولت غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔

لیکن کیون ایپلبے، جو نقلِ مکانی کے امور میں یو ایس کانفرنس آف کیتھولک بشپس کی نمائندگی کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس پروگرام سے ان لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے جو اپنی زندگی بہتر بنانے کی جستجو کر رہے ہیں ۔

’’جو لوگ اپنا وطن چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں سرحد پار کرتے ہیں، یا اپنے گھرانوں کے لوگوں کے ساتھ زندگی گذارنے کے لیے یہاں آتے ہیں، ان کے ساتھ مجرموں کا سا سلوک نہیں کرنا چاہیئے ۔ انہیں لمبی سزائیں دینا، ضابطے کی قانونی کارروائی سے محروم کرنا، انہیں دوسرے پر تشدد ملزموں کے ساتھ رکھنا، غیر انسانی رویہ ہے اور اس پر عمل بند ہونا چاہیئے ۔‘‘

گریس مینگ ہیومن رائٹس واچ کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ انھوں نے اس طریقے کے بارے میں ایک تحقیقی مطالعے پر کام کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ بہت سے امریکی یہ سمجھے بغیر کہ اس کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے، اس طریقے کے حامی ہوں۔

’’امریکہ کے لوگوں کو شاید کوئی اندازہ نہیں کہ اس قسم کے مقدموں کی تعداد کتنی زیادہ ہے ۔ آج کل کُل وفاقی فوجداری مقدمات میں سے پچاس فیصد کیس امیگریشن کے ہیں ۔ اس ملک میں غیر قانونی طور پر دوبارہ داخل ہونا، اس ملک میں وہ جرم ہے جس کے سب سے زیادہ مقدمے چلائے جا رہے ہیں۔‘‘

ریٹائرڈ وفاقی مجسٹریٹ جیمز سٹاوہن جنھوں نے ایک عشرے سے زیادہ عرصہ کیلے فورنیا کے سرحدی شہر سان ڈیاگو میں گذارا ہے ، کہتے ہیں کہ انہیں خوشی ہے کہ اس پروگرام پر وہاں عمل در آمد نہیں ہوا۔’’اگر آپریشن اسٹریم لائن پر ہمارے شہر میں عمل ہو رہا ہوتا، تو ہمارا کام کا بوجھ اور ہمارے کیسوں کی تعداد تین سے پانچ گنا ہو جاتی ۔ اس طرح نہ صرف قانونی تقاضے پورے کرنے مشکل ہو جاتے، بلکہ عدالتی نظام پر خرچ کا بہت زیادہ بوجھ پڑ جاتا ۔‘‘

لیکن امریکہ کے ہوم لینڈ سیکورٹی کے محکمے کے عہدے دار کہتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں میں سرحد پر غیر قانونی داخلوں کی تعداد میں جو زبردست کمی آئی ہے وہ اسی قانون کی وجہ سے ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پکڑے جانے والے بہت سے لوگوں کو فوری طور پر ملک سے نکال دیا جاتا ہے۔

اگر اس بات کی کوئی علامت نظر نہیں آتی کہ کسی شخص نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کے سوا کسی اور قانون کی خلاف ورزی کی ہے، اور یہ اس کا پہلا جرم ہے جس کا اس نے اقرار کر لیا ہے، تو پھر چند گھنٹوں کی کارروائی کے بعد اسے سرحد پار واپس بھیج دیا جاتا ہے ۔

ایسے گروپوں نے بھی اس پروگرام کا دفاع کیا ہے جو امریکہ کے امیگریشن کے قوانین پر زیادہ سختی سے عمل درآمد کے حق میں ہیں۔ ان میں فیڈریشن فار امریکن امیگریشن ریفارم یا فیئر شامل ہے۔ فیئر کے ترجمان ارا مہلمان کہتے ہیں کہ اس قانون پر عمل درآمد کے ناقدین در اصل کسی بھی مؤثر اقدام کے مخالف ہیں۔

’’اے سی ایل یو اور دوسرے لوگ در اصل غیر قانونی امیگرینٹس کو گرفتار کرنے کے خلاف ہیں۔ وہ تو بس یہ چاہتے ہیں انہیں سڑکوں پر آزاد چھوڑ دیا جائے کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ لوگ بڑی آسانی سے غائب ہو جائیں گے۔ بہت سے کیسوں میں یہ اپنے اصل نام استعمال نہیں کرتے، پھر وہ کوئی دوسری عرفیت استعمال کرنے لگتے ہیں ۔ انہیں پھر سے تلاش کرنے کے لیے وسائل خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اگر اے سی ایل یوکو واقعی یہ فکر ہے کہ ہم کس طرح اپنے وسائل استعمال کر رہے ہیں، تو پھر انہیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہونی چاہیئے کہ ان لوگوں کو بار بار تلاش نہ کرنا پڑے ۔‘‘

مہلمان یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ سرحدی عملے کی ترجیح یہ ہونی چاہیئے کہ دہشت گردوں اور اسمگلروں کو پکڑا جائے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ قانون کی ہر قسم کی خلاف ورزی پر توجہ دی جانی چاہیئے۔ ’’یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیئے جو امریکی معاشرے کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے لوگوں کو کھلی چھٹی دے دیں جو امریکہ کے امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔ امیگریشن کے قوانین اسی لیے بنائے گئے ہیں کہ ہمارے خیال میں جو لوگ غیر قانونی طور پر امریکہ آتے ہیں، وہ اس ملک میں بہت سے لوگوں پر برے اثرات ڈالتے ہیں۔‘‘

اگرچہ ایسی علامتیں نظر آ رہی ہیں کہ امریکی کانگریس میں جامع امیگریشن اصلاحات کے لیے دونوں پارٹیوں میں حمایت موجود ہے، اس میں اضافے کی بڑی وجہ اوباما انتظامیہ کے وہ اعداد و شمار ہیں جن سے ظاہر ہوا ہے کہ میکسیکو کی سرحد پر سیکورٹی کے بہتر انتظامات سے فرق پڑا ہے ۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ اس مرحلے پر کسی موئثر اقدام کو ترک کرنے یا اس میں کوئی بڑی تبدیلی کرنے کے نتیجے میں ، امیگریشن اصلاح کی مجموعی کوشش خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔
XS
SM
MD
LG