رسائی کے لنکس

داعش کو شکست، ’سست پیش رفت‘ پر مایوسی کا اظہار


جنرل ڈنفرڈ
جنرل ڈنفرڈ

مشرق وسطیٰ کے حوالے سے سماعت کے دوران، امریکی فوجی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ، جنرل جوزف ڈنفرڈ نے کہا کہ، ’اب تک حاصل کردہ ہماری پیش رفت سے کوئی بھی مطمئن نہیں‘

کین بریدمائر

امریکی فوج کے اعلیٰ ترین سربراہان نےمنگل کے روز قانون سازوں کے سامنے یہ بات تسلیم کی کہ شام اور عراق میں داعش کے سرکشوں کا قلع قمع کرنے کی امریکی کوششیں وقت لیوا کام ہے۔

مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ایک سماعت کے دوران، امریکی فوجی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ، جنرل جوزف ڈنفرڈ نے کہا کہ، ’اب تک حاصل کردہ ہماری پیش رفت سے کوئی بھی مطمئن نہیں‘۔

وزیر دفاع ایش کارٹر نے سینیٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی کو بتایا کہ شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی کے سلسلے میں 50 کروڑ ڈالر لاگت سے معتدل باغی فوجوں کو تربیت فراہم کرنے کے کام میں ناکامی پر ’مایوسی‘ ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں امریکہ نے یہ پروگرام اُس وقت ترک کیا جب محض چند فوجیوں کو تربیت دی گئی تھی۔
ایک سوال پر، کارٹر نے بتایا کہ امریکہ نے داعش کی فضائی کارروائی تیز تر کردی ہے، ایسے میں جب شمالی شام کے شہر رقعہ میں، جو کہ اِن کارروائیوں کا صدر مقام ہے، امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔

کارروائی کی مایوس کُن رفتار

ساتھ ہی، ڈنفرڈ نے کہا ہےکہ امریکی فوجی رہنما عراق کے زیر تسلط وسیع رقبے کی بازیابی کے لے عراقی افواج کی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم، ’اِن کارروائیوں کی رفتار پر اُنھیں مایوسی لاحق ہے‘۔ شمالی عراق اور شام کے اس علاقے پر دولت اسلامیہ نے قبضہ جما لیا ہے۔

کمیٹی کے سربراہ اور ایک طویل مدت سے مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی پالیسیوں کے نقاد، سینیٹر مک کین نے کہا کہ صدر براک اوباما خطے میں ایک ناکام کوشش کی نگرانی کر رہے ہیں، اور بقول اُن کے، ’وہ مسئلے کی درست تشخیص میں ناکام رہے ہیں‘۔
مک کین کے الفاظ میں، ’اولاً، داعش کے بارے میں ہماری پالیسی یہ سمجھنے سے قاصر رہی ہے کہ دولت اسلامیہ کی طرف سے تمام ممکنہ خدشات کا ادراک کر سکے، جو دراصل مسئلے کی گہرائی کی محض علامتیں ہیں، پھر سارے مشرق وسطیٰ میں اقتدار کی جنگ اور فرقہ وارانہ شناخت کی تگ و دو شامل ہے، جس کا محور عراق اور شام بنا ہوا ہے۔‘

مک کین، جنھوں نے سنہ 2008کے صدارتی انتخابات میں اوباما سے شکست کھائی، بتایا کہ، ’ہم نے مشرق وسطیٰ سے رخصت ہونے کی کوشش کی۔ اب اس خلا کو پُر کرتے ہوئے، (روسی صدر) ولادیمیر پیوٹن کود پڑے ہیں‘۔۔ اور روس اُن باغی گروہوں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے جو صدر بشار الاسدد کی وفادار شامی فوجوں سے لڑ رہے ہیں‘۔

مک کین نے کہا کہ شام کے چار برس پرانے تنازع کے خاتمے کے بارے میں، ’ہم بار بار یہی سنتے ہیں کہ اس کا کوئی فوجی حل نہیں‘۔

تاہم، اُنھوں نے مزید کہا، ’یہ بات دھوکے میں ڈالنے والی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بجائے درکار کچھ وقت دینے کے، ہم یہ کہہ رہے کہ مسئلے کا کوئی سفارتی حل موجود نہیں ، جب کہ واضح طور پر اس مسئلے کا ایک فوجی تناظر بھی ہے‘۔

مک کین کی’نوفلائی زون‘ کی حمایت
اُنھوں نے کارٹر کو ڈانٹا کہ اُنھوں نے شام میں نو فلائی زورن کی سفارش اوباما کو کیوں نہیں کی، تاکہ امریکہ سے وفادار شامی باغیوں کی فوجوں کو شامی اور روسی فضائی حملوں سے بچانے کے لیے کچھ کیا جاتا، ایسے میں جب اسد کے لڑاکا جیٹ طیارے بم برسا رہے ہیں جن کے نتیجے میں ہزاروں شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔

مک کین نے کہا کہ شام میں روس کے ملوث ہونے سے ’اب امریکہ میدان چھوڑنے لگا ہے‘۔

اُنھوں نے شام میں امریکی اقدام کو ’نہ صرف ہمارے مفادات کے خلاف، بلکہ غیر اخلاقی‘ قرار دیا۔

اُنھوں نے کہا کہ روس ’مشرق وسطیٰ میں برتر فوجی طاقت بن چکا ہے‘۔

ڈنفرڈ نے کہا ہے کہ عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے اُنھیں گذشتہ ہفتے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ روس کو عراق میں فضائی کارروائی کے لیے مدعو نہیں کرے گا۔

کارٹر نے کہا کہ اسد کے مخالفین پر شام میں کیے جانے والے فضائی حملوں کے سلسلے میں امریکہ روس کے ساتھ ’تعاون نہیں کر رہا‘۔

تاہم، سینیٹر ٹام کوٹن نے، جو مشرق وسطیٰ میں امریکی اقدام کے دوسرے ناقد ہیں، امریکی فوجی قائدین پر نکتہ چینی کی، جو بقول اُن کے، عراق کو یہ بات باور نہیں کراسکے کہ شام میں کارروائی کے لیے روس کو عراقی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت منسوخ کی جائے۔
امریکہ کو پہنچنے والے دھچکوں کے باوجود، کارٹر نے اس بات کا عہد کیا کہ ’ہم داعش کے سرکشوں کو یقینی شکست دے کر رہیں گے‘۔

XS
SM
MD
LG