رسائی کے لنکس

شام میں فوجی اڈے پر میزائل حملہ، امریکہ کی ملوث ہونے کی تردید


شام کے علاقے منبج کی حال ہی میں لی گئی ایک تصویر جہاں ایک امریکی فوجی اپنی گاڑی میں موجود ہے۔
شام کے علاقے منبج کی حال ہی میں لی گئی ایک تصویر جہاں ایک امریکی فوجی اپنی گاڑی میں موجود ہے۔

شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق پیر کو علی الصباح کیے جانے والے میزائل حملے میں کئی افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

امریکی فوجی حکام نے شام کی حکومت کے اس الزام کی تردید کی ہے کہ صوبہ حمص کے ایک فوجی اڈے پر ہونے والا میزائل حملہ امریکہ نے کیا ہے۔

شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق پیر کو علی الصباح کیے جانے والے میزائل حملے میں کئی افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ میزائل حملے کا نشانہ 'ٹی 4' نامی فوجی ہوائی اڈہ بنا ہے۔ شامی فوج کے ذرائع کے مطابق فوجی اڈے کی جانب فائر کیے جانے والے آٹھ میزائلوں کو مار گرایا گیا لیکن کچھ میزائلوں نے فوجی اڈے کو نشانہ بنایا ہے۔

حملے کا نشانہ بننے والا فوجی اڈہ شام کے وسط میں واقع تاریخی شہر پلمیرا کے نزدیک ہی ہے جسے گزشتہ سال ہی داعش کے جنگجووں کے قبضے سے آزاد کرایا گیا تھا۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والے ہوائی اڈے پر روسی فوجیوں کی بڑی تعداد بھی تعینات ہے اور اس ہوائی اڈے سے اڑنے والے جنگی جہاز تواتر سے شام میں باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں پر بمباری کرتے ہیں۔

شام کے سرکاری ٹی وی نے حملے کا الزام امریکہ پر عائد کیا ہے لیکن امریکی محکمۂ دفاع نے واضح کیا ہے کہ امریکی فوج نے شام میں ایسا کوئی حملہ نہیں کیا۔

'پینٹاگون' کے ترجمان کرسٹوفر شیرووڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی فوج نے شام میں کوئی میزائل حملہ نہیں کیا لیکن امریکہ صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور شام میں حال ہی میں کیے جانے والے کیمیائی حملے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے جاری سفارتی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔

دمشق کے نواحی علاقے غوطے کے قصبے دوما کی ہفتے کو لی گئی تصویر جس میں شامی طیاروں کی بمباری کے بعد علاقے سے دھویں کے بادل اٹھ رہے ہیں
دمشق کے نواحی علاقے غوطے کے قصبے دوما کی ہفتے کو لی گئی تصویر جس میں شامی طیاروں کی بمباری کے بعد علاقے سے دھویں کے بادل اٹھ رہے ہیں

مبینہ کیمیائی حملہ باغیوں کے زیرِ قبضہ دمشق کے نواحی علاقے غوطہ میں ہفتے کو کیا گیا تھا جس میں کم از کم 40 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔

شام میں 2011ء سے جاری خانہ جنگی کے دوران کئی بار کیمیائی حملوں کی اطلاعات آتی رہی ہیں لیکن شامی حکومت ہمیشہ ان حملوں میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کرتی ہے۔

مبینہ کیمیائی حملے کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد اتوار کو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حملے کے ذمے داروں کو اس کی بھاری قیمت چکانا ہوگی۔

اتوار کو اپنے ایک ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے کیمیائی حملے کو بے رحمانہ عمل قرار دیتے ہوئے حملے کا ذمہ دار صدر ولادیمیر پوٹن، روس اور ایران کو قرار دیا جو ان کے بقول "وحشی اسد" حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔

بعد ازاں وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ نے اتوار کی شب اپنے فرانسیسی ہم منصب ایمانوئیل میخواں سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس میں دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ انسانی حقوق کی مسلسل پامالی پر شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا احتساب ہونا چاہیے۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق دونوں رہنماؤں نے مشترکہ اور بھرپور جوابی کارروائی کرنے اور اس بارے میں باہم رابطے بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔

امریکہ کی طرح فرانس نے بھی پیر کو شامی فوجی اڈے پر کیے جانے والے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

البتہ اسرائیلی حکومت کی ایک ترجمان نے شام میں میزائل حملے میں اسرائیل کے ملوث ہونے سے متعلق سوال پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔

اسرائیل کی فوج اس سے قبل بھی شام میں فوجی تنصیبات اور شامی فوجی قافلوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG