رسائی کے لنکس

پاکستان میں مذہبی آزادی کی 'سنگین خلاف ورزیوں' پر تشویش: رپورٹ


ایک مسیحی خاتون لاہور میں مارچ 2015 میں دو چرچوں میں بم حملوں کا نشانہ بننے والوں کے لیے دعا کر رہی ہے۔ فائل فوٹو
ایک مسیحی خاتون لاہور میں مارچ 2015 میں دو چرچوں میں بم حملوں کا نشانہ بننے والوں کے لیے دعا کر رہی ہے۔ فائل فوٹو

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے مذہبی آزادی کی منظم، مسلسل اور سنگین خلاف ورزیوں کو جاری رکھا ہے اور برداشت کرتی رہی ہے۔

بین الاقوامی مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے امریکی کمیشن نے ایک مرتبہ پھر محکمہ خارجہ کو سفارش کی ہے کہ وہ پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کرے جن کے بارے میں خصوصی تشویش پائی جاتی ہے اور جہاں مذہبی آزادی کی سخت خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں یا ان سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔

تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے تمام مذہبی برادریوں کو پاکستان میں مساوی حقوق حاصل ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے مذہبی آزادی کی منظم، مسلسل اور سنگین خلاف ورزیوں کو جاری رکھا ہے اور ان سے صرف نظر کرتی رہی ہے۔

’’مذہبی امتیاز پر مبنی آئینی دفعات اور قوانین مثلاً ملک کے توہین مذہب اور احمدی مخالف قوانین مذہب اور عقیدے کی آزادی کے بین الاقوامی معیارات کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ان کے تحت قانونی کارروائی اور قید ہو سکتی ہے۔‘‘

رپورٹ میں غیر ریاستی عناصر کا بھی ذکر کیا گیا جو تمام پاکستانیوں اور ملک کی مجموعی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ ان میں تحریک طالبان پاکستان ایسی وہ تنظیمیں بھی شامل ہیں جنہیں امریکہ نے غیرملکی دہشت گرد تنظیمیں قرار دے رکھا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ شیعہ مسلمانوں کے علاوہ مسیحی، احمدی اور ہندو برادریوں سمیت اقلیتی مذہبی برادریوں کو مستقل طور پر دہشت گرد تنظیموں اور معاشرے کے افراد کی طرف سے فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیاد پر کیے گئے تشدد کا سامنا۔

’’حکومت کی طرف سے ایسے تشدد کا ممکنہ نشانہ بننے والوں کو مناسب تحفظ فراہم کرنے اور مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں ناکامی کے باعث سزا سے استثنیٰ کا ماحول پیدا ہوا ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔‘‘

کمیشن نے سرکاری نصابی کتب میں اقلیتی برادریوں کے خلاف امتیازی مواد کے علاوہ مسیحی اور ہندو لڑکیوں اور عورتوں کا زبردستی مذہب تبدیل کر کے ان سے جبراً شادیوں کو بھی باعث تشویش قرار دیا۔

امریکی حکومت کی رپورٹ میں اگرچہ پاکستانی حکومت کی طرف سے سنگین مذہبی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے کیے گئے کچھ اقدامات کا تذکرہ کیا گیا ہے مگر ساتھ ہی کہا گیا کہ حکومت منظم تبدیلی میں ناکام ہوئی ہے۔

’’لہٰذا، بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن ایک مرتبہ پھر 2016 میں سفارش کرتا ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی مذہبی آزادی کے قانون کے تحت ’خصوصی تشویش والے ممالک‘ میں شامل کیا جائے جیسا کہ 2002 سے کیا جاتا رہا ہے۔‘‘

حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اقلیتی برادریوں کو بھی شدت پسندوں سے وہی خطرات لاحق ہیں جو ملک کے دیگر حلقوں کو درپیش ہیں۔

’’یہ حالات پہلے سے بہتر ہوئے۔ لوگوں کو حقیقت کا علم ہوا ہے اور حکومت کو پورا احساس ہے۔ اور (گزشتہ) تین سال سے آپ دیکھیں تو مذہبی آزادی پر حکومت ناصرف زور دے رہی ہے بلکہ انسانی حقوق کی پوری وزارت بنائی گئی ہے۔ اس کے چند نکات جنہیں خود وزیراعظم دیکھتے ہیں ان میں عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق شامل ہیں تاکہ ان (حقوق) کو یقینی بنایا جا سکتے جو ہمارے آئین کا حصہ ہے۔‘‘

تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہی تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست رمیشن کمار ونکوانی نے کہا کہ اگرچہ کچھ علاقوں میں اقلیتی برادریوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے مگر امریکی رپورٹ میں جن باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ بالکل درست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں اقلیتوں کے بارے میں منفی رویے اور ذہنیت پائی جاتی ہے۔

’’ذہنیت کو بدلنے کے ہمیں نصاب تبدیل کرنا پڑے گا۔ کیا ہم نے تبدیل کیا ہے؟ خیبرپختونخوا میں دوسری جماعت کی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ہندو کافر ہے۔ اگر اپنے بچوں کو ہم یہ ذہنیت دیں گے تو اس مستقبل سے ہم زیادہ توقعات وابستہ نہیں کر سکتے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جون 2014 میں اقلیتی برادریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت کو ایک قومی کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا مگر اس پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں کی گئی اور صرف باتیں کرنے سے حالات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

XS
SM
MD
LG