رسائی کے لنکس

سوچ کا اظہار، ذرا سوچ کے


حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا ایک طاقت ور ذریعہ اظہار کے طور پر سامنے آیا ہے جس پر کوئی بھی کسی بھی طرح اپنے خیالات کا چاہے وہ کیسے بھی ہوں، کھل کر اظہار کر سکتا ہے۔

لیکن اس 'بے مہار' آزادی کا نقصان بھی سامنے آنا شروع ہو گیا ہے جس میں کئی واقعات تو مہلک نتائج کے حامل رہے اور بعض میں سخت تادیبی کارروائیاں دیکھنے میں آئیں۔

حال ہی میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے چند طلبہ کو فیس بک پر تدریسی ادارے کی ساکھ خراب کرنے، انتظامیہ پر بے جا تنقید اور دیگر طلبہ کو ورغلانے کے الزامات کے تحت تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا جس سے ان کا مستقبل تقریباً داؤ پر لگ گیا۔

یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف ہے کہ یہ طلبہ فیس بک پر "روزنامہ یو اے ایف" نامی ایک پیج پر نامناسب انداز میں رائے زنی کرتے ہوئے یونیورسٹی کی بدنامی کا سبب بنے اور ایک عرصے تک تحقیقات کرنے کے بعد ان کی شناخت کر کے ان کے خلاف قدم اٹھایا گیا ہے۔

انضباطی کارروائی کرنے والی کمیٹی نے چھ طلبہ کو طلب کر ان سے بازپرس کی اور پھر انھیں یونیورسٹی سے نکال دیا۔ لیکن یہ طلبہ اس فیصلے کے خلاف یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے سامنے اپیل کا حق رکھتے ہیں۔

بعض طلبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان الزامات کو مسترد کیا اور ان کا موقف ہے کہ انھیں دی جانے والی سزا انتہائی سخت ہے۔

روزنامہ یو اے ایف کا فیس بک پیج
روزنامہ یو اے ایف کا فیس بک پیج

ایک طالب علم نے بتایا کہ انھوں نے صرف اس فیس بک پیج پر کچھ کمنٹس کیے تھے اور ان کے بقول انضباطی کمیٹی کا اصرار ہے کہ دراصل وہی یہ پیج چلا رہے ہیں جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔

طالبِ علم کا موقف تھا کہ اظہارِ رائے پر قدغن سے خوف و ہراس پھیلتا ہے جس کے طلبہ اور سماج پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

"اگر ہم نے کوئی بات کرنی ہے، ہماری دانست میں کوئی عام بات ہو اپنی سوچ کے مطابق لیکن یونیورسٹی کے خیال میں یہ ان کے خلاف ہو تو وہ ہمیں بیان نہیں کرنی چاہیے تو ایسے میں وہ (طلبا) دباؤ میں رہیں گے اور اس سے ان کے اندر قائدانہ صلاحتیں دب جائیں گی۔"

ان کے بقول ایسے فیصلوں کا اثر یہ ہوسکتا ہے کہ طالب علم صرف اپنی کتابوں پر ہی توجہ دیں اور شخصیت سازی پر دھیان نہ دیں۔

"جب طالب علم بغیر سوال کیے کسی بھی بات کو ماننا شروع کر دے تو وہ آہستہ آہستہ اس کی عادت بن جاتی ہے وہی عادت پھر غلامی میں تبدیل ہو جاتی ہے وہ بغیر سوال کیے بات مان لیتا ہے چاہیے غلط ہو یا صحیح۔"

ایک اور طالب علم کا موقف بھی یہی تھا کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا اور انتظامیہ کو ان کے بقول غلط فہمی ہوئی ہے۔ انھوں نے اس فیصلے کے خلاف وائس چانسلر کے سامنے اپیل بھی جمع کروا دی ہے۔

دوسری طرف یونیورسٹی انتظامیہ کے ترجمان ڈاکٹر جلال عارف سے بات کرنے پر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ وہ نہیں جو زیر بحث ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ باقاعدہ تحقیقات کر کے ان طلبا کو شناخت کیا گیا اور یونیورسٹی ایکٹ کے تحت جو کارروائی ضروری تھی وہ کی گئی جب کہ یہ طلبہ اپیل کا حق رکھتے ہیں۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد

"یہ ہمارے بچے ہیں ہمارے دشمن نہیں۔ ہمیں ان کی تربیت کرنی ہے کہ ایسے کام نہیں کرتے۔۔۔ آزادی اظہار کے نام پر لوگوں کو کسی کی پگڑی اچھالنے، کسی کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اپیل کریں وائس چانسلر کسی کو کیوں معاف نہیں کریں گے کسی کا مستقبل تو تباہ نہیں کرنا۔"

ڈاکٹر جلال نے بتایا کہ بظاہر یونیورسٹی کے ہی کچھ لوگ ان طلبا کو اس کام کے لیے ترغیب دیتے ہیں کیونکہ موجودہ وائس چانسلر اقرار احمد خان ایک عرصے سے یہاں ہیں اور ان کی قابل ذکر خدمات ان کے بقول کچھ لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔

"60 فیصد بچے اسکالر شپ پر پڑھ رہے ہیں، دس ہاسٹلز نئے بنے ہیں، دو گرلز ہاسٹلز ایک ہزار کی گنجائش کے ساتھ بنائے گئے ہیں، ہر ہاسٹل میں انٹرنیٹ ہے، جنریٹر ہے اور ہر طرح کی سہولت ہے۔ کوئی بحران نہیں ہے۔ ان بچوں کے پیچھے چار پانچ لوگ ہوتے ہیں۔ کالی بھیڑیں ہیں جو انھیں متحرک کرتے ہیں۔ اب بچے آہستہ آہستہ ان کے نام بھی بتا رہے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس بھی ایک طالب علم کو نکالا گیا تھا لیکن وائس چانسلر سے اپیل کیے جانے کے بعد اس کی تعلیمی سرگرمیوں کو بحال بھی کر دیا گیا تھا۔

طلبا اور یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف جاننے کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ سارے معاملے کی بنیادی وجہ جو بھی ہو لیکن سوشل میڈیا کا ذمہ دارانہ استعمال بہرحال ضروری ہے وگرنہ نتائج کسی کی بھی سوچ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG