رسائی کے لنکس

ایرانیوں کی "جبر سے رہائی" چاہتے ہیں: امریکی نائب صدر


امریکی نائب صدر مائیک پینس نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ ایرانی عوام یہ بات سمجھتے ہیں کہ امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ وہ جبر سے ’’رہائی اور جمہوری مستقبل تک رسائی حاصل کر سکیں‘‘۔

’وائس آف امریکہ‘ کی نامہ نگار، گریٹا وان سستران کے ساتھ بدھ کو ایک خصوصی انٹرویو میں مائیک پینس نے کہا کہ ’’سب سے پہلے یہ اہم بات ذہن نشین کرنی چاہیئے کہ ایران دنیا بھر میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا سرکردہ ملک ہے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’نہ صرف یہ کہ ایران اپنے ہی عوام کو دبا کر رکھتا ہے، اُنھیں انسانی حقوق سے محروم رکھتا ہے، بلکہ وہ خطے بھر میں دہشت گرد برآمد کرتا ہے، اور عدم استحکام پیدا کرنے والی ایک انتہائی خطرناک قوت بن چکا ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’اِس لیے، ایران کے عوام کی جانب سے ملک میں تبدیلی کے مطالبے پر اٹھ کھڑا ہونا، ایک خوش آئند امر ہے۔ امریکی اور دنیا بھر میں آزادی کے متوالے، جو آزادی کی امنگ کو سربلند رکھتے ہیں، اُن کے لیے یہ ایک خوش آئند امر ہے‘‘۔

اِس ضمن میں، مائیک پینس نے کہا کہ سال 2009ء کے ’’سبز انقلاب کے دوران جب ایرانی اٹھ کھڑے ہوئے تھے، اُس وقت کے امریکی صدر نے چپ سادھ لی تھی‘‘، جس کے مقابلے میں، ’’آج معاملہ بالکل ہی مختلف اور واضح ہے‘‘۔

پینس نے کہا کہ ’’صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے شہروں میں احتجاج کرنے والوں کی حمایت میں کھل کر بیان دینا، اختیار کردہ نئے رویے کی ڈرامائی تبدیلی کا غماز ہے، اور میرے خیال میں، یہ بات آزادی کے چمپئن کی حیثیت سے امریکہ کے کردار کی نمائندگی کا حق ادا کرتی ہے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’فرق واضح ہے کہ صدر ٹرمپ نے معذرت خواہانہ انداز نہیں اپنایا۔ اور وہ آج حوصلہ مند ایرانی عوام کے ساتھ صرف زبانی کلامی طور پر ساتھ نہیں کھڑے، بلکہ، میں یہ یقین دلاتا ہوں کہ ایسے میں جب وہ ملک میں تبدیلی لاتے ہیں، امریکہ کے علاوہ وسیع تر دنیا ایرانی عوام کے ساتھ کھڑی ہوگی، جو بہتر، خوش حال اور آزاد مستقبل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔

پچھلی امریکی انتظامیہ کی جانب سے ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے مائیک پینس نے کہا کہ ’’یہ وہ وقت تھا جب ایرانی عوام جمہوریت کے حصول کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ بتایا یہ جارہا تھا کہ ایران کے ساتھ کیے جانے والے جوہری معاہدے کے نتیجے میں ایران کا زیادہ معتدل رویہ سامنے آئے گا؛ لیکن، بقول اُن کے، ’’ایسا نہیں ہوا‘‘۔

مائیک پینس نے کہا کہ ’’اب ایران میں لوگوں کا سڑکوں کا رخ اختیار کرنا اور امریکہ میں ایسے صدر کا موجود ہونا جو اُن کی تائید کرتے ہیں، یہ ایک خوش آئند امر ہے‘‘۔

سماجی میڈیا کے دور سے متعلق ایک سوال پر، مائیک پینس نے کہا کہ ’’ایران کی حکومت میں آیت اللہ کی حکمرانی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں اپنے لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے؛ اور کوشش کی جاتی ہے کہ اُن کی سماجی میڈیا تک رسائی بند کی جائے‘‘۔

اِس معاملے پر، مائیک پینس نے اقوام متحدہ میں امریکی مندوب، نِکی ہیلی کا حوالہ دیا جنھوں نے ایرانی عوام کے حق میں غیر مبہم بیان دیتے ہوئے اِس توقع کا اظہار کیا ہے کہ ایرانی عوام اپنی جدوجہد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’ایران کی تعلیم یافتہ، نوجوانوں پر مشتمل آبادی امریکہ اور اُس کے عوام کی امنگوں سے خوب آگاہ ہے، اور دونوں عوام ایک دوسرے کے قدرتی اتحادی ہیں۔ ہم یہی چاہتے ہیں کہ آزادی اور جمہوری مستقبل تک ایرانیوں کو رسائی میسر ہو؛ ہم چاہتے ہیں کہ ایرانی عوام اپنی آمرانہ حکومت سے دور ہوں جس نے دنیا بھر کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے اور جوہری ہتھیار تشکیل دینے کی خواہاں ہے‘‘۔

تعزیرات کے سوال پر نائب صدر نے بتایا کہ صدر ٹرمپ ’’اِس معاملے پر جلد فیصلہ کرنے والے ہیں، اور عین ممکن ہے کہ اس ماہ کے وسط تک یہ اعلان سامنے آ جائے‘‘۔

شمالی کوریا کے بارے میں ایک سوال پر، مائیک پینس نے کہا کہ ’’معاشی اور سفارتی اعتبار سے، آج چین شمالی کوریا کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے، جو دراصل اُس کی ذمہ داری ہے‘‘۔ لیکن، اُنھوں نے کہا کہ ’’چین کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ جہاں تک امریکہ کا معاملہ ہے’’شمالی کوریا کے بارے میں ہمارے تمام آپشنز کھلے ہیں‘‘۔

مائیک پینس نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ امریکہ اپنے عوام اور اس سے باہر دنیا بھر میں، دفاع کی بے انتہا استعداد رکھتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شمالی کوریا اپنی جوہری اور بیلسٹک میزائل کے تجربے بند کرے، اور اگر وہ یہ راہ اختیار کرتا ہے اور اپنا اسلحہ تلف کرنے کا اعلان کر دے؛ تو اِس بات سے ایک پُرامن حل کا موقع میسر آسکتا ہے‘‘۔

XS
SM
MD
LG