رسائی کے لنکس

ٹوکیو اولمپکس: 'مشکل حالات میں پانچویں پوزیشن کسی اعزاز سے کم نہیں'


طلحہ طالب نے ویٹ لفٹنگ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
طلحہ طالب نے ویٹ لفٹنگ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے 21 سالہ ویٹ لفٹر طلحہ طالب گولڈ میڈل تو نہیں جیت سکے لیکن انہوں نے وہ کر دکھایا جس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ طلحہ صرف چند کلو کے فرق سے ویٹ لفٹنگ کے مقابلے میں گولڈ میڈل نہ جیت سکے اور پانچویں پوزیشن پر رہے۔

اتوار کو ہونے والے ویٹ لفٹنگ کی 67 کلو گرام کیٹیگری کے مقابلے میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے طلحہ طالب نے پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ جس پر گوجرانوالہ کے اندرون شہر کے محلہ بختے والا میں ان کے گھر مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے اور مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی ہیں۔

طلحہ طالب کے والد محمد اسلام ناطق اپنے چھوٹے سے گھر میں لوگوں سے مبارک باد وصول کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلوانی گوجرانوالہ کی پہجان ہے لیکن ویٹ لفٹنگ میں بھی نام کمانے کے لیے یہاں کے بچوں کے ارادے مضبوط اور خواب بڑے ہیں۔

طلحہ طالب کے اولمپکس مقابلوں کے بارے میں ان کے والد نے بتایا کہ پہلے تین راؤنڈز میں وہ دوسرے نمبر پر آ رہے تھے اور اہلِ خانہ ان کی جیت کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔ بعد ازاں وہ پانچویں نمبر پر آئے۔ ان کے بقول بیٹے کی پانچویں پوزیشن پر بھی وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔

طلحہ طالب نے 67 کلو گرام کی کٹیگری میں پانچویں پوزیشن حاصل کی۔
طلحہ طالب نے 67 کلو گرام کی کٹیگری میں پانچویں پوزیشن حاصل کی۔

اسلام ناطق کا کہنا ہے کہ طلحہ نے جن مشکل حالات میں اولمپکس میں پانچویں پوزیشن حاصل کی ہے آپ اسے گولڈ میڈل ہی سمجھیں، یہ پوزیشن بھی ہمارے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں، پہلے کوئی پاکستانی ویٹ لفٹر اس پوزیشن تک نہیں پہنچ سکا۔

انہوں نے کہا کہ طلحہ نے مشکل حالات میں ویٹ لفٹنگ کی تربیت حاصل کی۔ ان کے بقول طلحہ اسلام آباد کے ایک ٹریننگ کیمپ میں گئے تو انہیں کہا گیا کہ رہائش کا کرایہ اور کھانے پینے کے اخراجات آپ کو خود برداشت کرنا ہوں گے۔

پینتالیس سال بعد ویٹ لفٹنگ میں پاکستان کی نمائندگی

طلحہ طالب کے والدین اپنے بیٹے کے گولڈ میڈل نہ جیتنے پر دکھی تو ہیں لیکن وہ اگلے مقابلوں کی تیاری پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔

اولمپکس کے ویٹ لفٹنگ مقابلوں میں پاکستان کے کسی کھلاڑی نے 45 سال بعد ملک کی نمائندگی کی ہے۔ اس سے قبل گوجرانوالہ سے ہی تعلق رکھنے والے ارشد ملک نے 1976 میں ہونے والے مانٹریال اولمپکس مقابلوں میں حصہ لیا تھا اور اب 2021 میں ارشد ملک کے ہی ایک شاگرد طلحہ طالب کے حصے میں یہ اعزاز آیا ہے۔

طلحہ طالب کی کوچنگ چند برسوں سے ان کے والد محمد اسلام ناطق کر رہے ہیں اور گزشتہ پانچ برس کی کارکردگی نے طلحہ کو اولمپکس کے مقابلوں تک پہنچایا۔

طلحہ طالب کے پہلے کوچ اُن کے والد ہیں جو کہ نوجوانی میں ویٹ لفٹنگ کرتے رہے ہیں۔ وہ خود تو اولمپکس تک نہ پہنچ سکے لیکن ان کے بیٹے نے اولمپکس میں پہنچ کر اور اچھی کارکردگی دکھا کر اپنے والد کا خواب پورا کر دیا ہے۔

طلحہ طالب کا حالیہ ریکارڈ شاندار ہے، انہوں نے 2018 میں اسلامک سولیڈیرٹی گیمز میں ایک طلائی اور دو چاندی کے تمغے جیتے تھے۔ انہوں نے چین میں ہونے والی ایشین چیمپئن شپ میں ساتویں پوزیشن حاصل کی۔ اسی طرح ساؤتھ ایشین چیمپئن شپ مقابلوں میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس ازبکستان میں ہونے والی عالمی سولیڈیرٹی چیمپئن شپ میں وہ تین طلائی تمغے جیت چکے ہیں۔

پروفیشنل ٹریننگ کیمپ کے بجائے اسکول میں ٹریننگ

پاکستان میں ویٹ لفٹنگ کے لیے سرکاری سطح پر ٹریننگ کیمپ اور کوچز نہ ہونے کے برابر ہیں، طلحہ طالب کا یہاں تک پہنچنا ان کی ذاتی طور پر ٹریننگ کا نتیجہ ہے۔

اسلام ناطق کا کہنا ہے کہ جس طرح کے نامساعد حالات اور وسائل کی کمی کے دوران طلحہ نے محض ذاتی دلچسپی اور شوق سے ٹریننگ کی وہ قابلِ قدر بات ہے۔ اس نے میرا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔

طلحہ طالب نے 45 برس بعد پاکستان کی نمائندگی کی۔
طلحہ طالب نے 45 برس بعد پاکستان کی نمائندگی کی۔

ان کے بقول طلحہ نے محلہ بختے والا کے جس اسکول سے تعلیم حاصل کی اسی اسکول کی انتظامیہ نے وہاں ویٹ لفٹنگ کی اجازت دی۔ اسکول انتظامیہ نے ہم سے کرایے کی مد میں کوئی رقم نہیں لی، حتیٰ کہ بجلی کا بل یا صفائی وغیرہ کا خرچہ تک نہیں لیا۔

محمد اسلام کا کہنا ہے کہ اب اسپورٹس بورڈ حکام نے ٹریننگ کے لیے کچھ دن پہلے ہی ہمیں جگہ مہیا کی ہے اس پر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ 'دیر آید درست آید'۔ البتہ ابھی آگے بہت سے مقابلے پڑے ہیں، اس لیے پیچھے مڑ کر دیکھنے اور گلے شکوے کرنے کے بجائے اگلے مقابلوں پر نظر رکھنی ہے۔

طلحہ طالب کے والد کا کہنا تھا کہ جب سے پاکستان کی اولمپکس ٹیم کا اعلان ہوا تب سے تنقید کا سلسلہ جاری تھا۔ حتیٰ کہ مقابلے شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل تک مختلف باتیں کی جا رہی تھیں اور اس قدر تنقید کی جارہی تھی جیسے ہم نے اولمکپس میں شرکت کر کے کوئی گناہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ اگر ہمیں اگلے اولمپکس میں میڈلز لانے ہیں تو آج سے ہی اس بارے میں مہم چلانا ہو گی۔ اپنے کھلاڑیوں کو سہولتیں دینا ہوں گی۔ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔

ان کے بقول یہاں تو صرف دس دن پہلے پتا چلتا ہے کہ فلاں کھلاڑی اولمپکس میں جا رہا ہے۔

اسلام ناطق نے بتایا کہ حال ہی میں پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن اور پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں ہوئی ہیں جنہیں حالات اور معاملات سے آگاہ کیا ہے۔ امید ہے کہ حالات میں بہتری آئے گی اور کامن ویلتھ گیمز میں ایتھلیٹس بہترین نتائج دیں گے۔

واضح رہے کہ رواں سال اکتوبر میں سنگاپور میں کامن ویلتھ چیمپئن شپ ہونی ہے جو کامن ویلتھ گیمز کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ ہے۔ جس کے بعد کامن ویلتھ گیمز اور پھر ایشین گیمز ہوں گے۔

طلحہ کے والد پُر امید ہیں کہ ان کے بیٹے اگلے مقابلوں میں ملک کا نام روشن کریں گے۔

XS
SM
MD
LG