ایرانی جوہری پروگرام کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایران کے اہل کار، امریکہ اور اُس کے مذاکرات کار ساجھے دار نیوکلیئر بات چیت کے معاملے پر باہمی سمجھوتے کے قریب تر پہنچ چکے ہیں۔ تاہم، وائٹ ہاؤس نے کسی ممکنہ سمجھوتے کے بارے میں دعوے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی۔
علی اکبر صالحی نے سرکاری تحویل میں کام کرنےوالے ایرانی ٹیلی ویژن کو بتایا کہ ایک نمایاں اختلاف باقی ہے، جسے اہل کار منگل کی شام گئے تک حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو اُس صورت میں تمام فریق تکنیکی امور پر رضامند ہو جائیں گے، جو امور سوٹزرلینڈ میں زیر غور آئیں گے۔
اُنھوں نے اس اختلاف کے بارے میں مزید نہیں بتایا۔
واشنگٹن میں، منگل کے روز، وائٹ ہاؤس ترجمان جوش ارنیسٹ نے بتایا کہ گذشتہ ایک برس کے دوران دونوں فریق نے بات چیت میں ’قابل قدر پیش رفت‘ حاصل کی ہے۔ تاہم، کسی سمجھوتے تک پہنچنے کا زیادہ سے زیادہ امکان 50 فی صد ہے۔
مذاکرات میں شریک حکام سمجھوتے کا ایک خاکہ طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کی مدد سے یہ بات یقینی بنائی جائے کہ ایران کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، جس کے عوض معاشی تعزیرات اٹھائی جائیں، جس سے ایرانی معیشت کو دھچکا لگا ہے۔
دونوں فریق سمجھوتے کا فریم ورک مد نظر رکھے ہوئے ہیں، جسےطے کرنے کی ڈیڈلائن اس ماہ کے اواخر تک ہے۔
توقعات کے بارے میں بیان دیتے ہوئے، امریکی محکمہٴخارجہ کی خاتون ترجمان، میری ہارف نے ’الحرہ ٹیلی ویژن‘ کو بتایا کہ علی اکبر صالحی نیوکلیئر کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ تاہم، تعزیرات ایک مختلف معاملہ ہے، جو تکنیکی معمے کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ سمجھوتا تب تک طے نہیں پا سکتا جب تک تمام باتوں پر رضامندی نہ ہو۔
پیر کے روز، ایک اعلیٰ امریکی اہل کار نے کہا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں آیا دونوں فریق ڈیڈلائن تک سمجھوتا طے کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اہل کار، جنھوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اخباری نمائندوں سے گفتگو کی، کہا ہے کہ، ’ایران کو ابھی چند مشکل تر اور لازمی اقدام کرنے ہیں‘۔
اِنہی اہل کار نے یہ بھی کہا کہ پیر کے روز کیری کے ساتھ ملاقات کے دوران، ایرانیوں نے اُس مراسلے کا معاملہ اٹھایا جو ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے 47 سینیٹروں نے گذشتہ ہفتے تحریر کیا تھا، جس میں کسی ممکنہ سمجھوتے کی صورت میں انتباہ جاری کیا گیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ جونہی صدر براک اوباما عہدہ چھوڑیں گے، اِسے منسوخ کیا جاسکتا ہے۔
صدر اوباما نے اِس مراسلے پر تنقید کی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریپبلیکنز کا یہ انداز ’طنزیہ‘ نوعیت کا یہ، کیونکہ یہ سینیٹر اپنے آپ کو ایران کے ’سخت گیر‘ رہنماؤں کے ساتھ کاندھا ملانا چاہتے ہیں۔ بقول اُن کے، ’یہ ایک غیرمعمولی اتحاد ہے‘۔