رسائی کے لنکس

بیرونی قرض ری شیڈول نہ کروانے، بانڈز کی ادائیگی یقینی بنانے کا دعویٰ؛ کیا خزانے میں رقم موجود ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اپنے معاشی معاملات کا انتظام خود کرے گا اور ملکی سطح پر کثیرالجہتی مالیاتی اداروں کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کا مکمل احترام کرتے ہوئے وقت پر قرض ادا کرے گا۔

اسحاق ڈار نے عندیہ دیا ہے کہ رواں سال کے آخر میں میچور ہونے والے تمام سرکاری بانڈز پر واجب الادا رقم صارفین کو ادا کی جائے گی اور اس میں کسی قسم کی کوئی توسیع نہیں کی جارہی اور اس ضمن میں حکمتِ عملی تیاری کر لی ہے۔

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے تمام دعوے اپنی جگہ لیکن کئی غیر جانب دار ماہرینِ معیشت اور اپوزیشن جماعت کے بہت سے رہنما یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر حکومت بانڈز اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کا انتظام کہاں سے اور کیسے کرے گی ؟

حکومتی اعداد و شمار خود بتارہے ہیں کہ رواں سال معاشی ترقی کی شرح تین فی صد سے زائد نہیں ہوگی، مہنگائی کی شرح کئی دہائیوں کی بُلند ترین سطح پر ہے اور عالمی کساد بازاری کے باعث برآمدات بھی کم رہنے کا امکان ہے۔

حالیہ سیلاب نے پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والی زراعت کے شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ٹیکسٹائل کے لیے خام مال اس سال باہر سے منگوانا پڑ سکتا ہے جس سے صنعتیں بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ایسے میں حکومت تقریبا 31 ارب ڈالر رواں مالی سال میں کیسے نکال پائے گی؟

پاکستان کے ذمے واجب الادا رقوم میں رواں سال پانچ دسمبر کو میچور ہونے والے پانچ سالہ سکوک بانڈ کی ادائیگی بھی شامل ہے جو ایک ارب ڈالر حجم کے ہیں اور ان پر 10 اکتوبر کو منافع کی شرح 30.58 فی صد ہے۔

مذکورہ تمام سوالات کے باوجود وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں حالیہ سیلاب کے بعد معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کے باوجود پاکستان عالمی قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر یا کسی قسم کے ریلیف کے لیے'پیرس کلب' کے پاس کوئی درخواست لے کر نہیں جارہا۔

واضح رہے کہ پیرس کلب ان ممالک کا گروپ ہے جو بڑے قرض دہندگان ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک کو قرض فراہم کرتے ہیں۔ اس گروپ کا کام قرض دار ممالک کو قرضوں کی ادائیگی میں درپیش پیچیدگیوں اور مشکلات کو دور کرنا ہے۔

'معاشی بحران بڑی حد تک سیاسی عدم استحکام سے جڑا ہے'

اس سے قبل کئی ماہرینِ معیشت اور تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ پاکستان اپنے ذمے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کو ری شیڈول کرنے کے لیے پیرس کلب سمیت عالمی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف)، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور چین کے ایشیائی انفرااسٹرکچر انویسمنٹ بینک سے بھی رابطہ کررہا ہے۔

بعض مالیاتی ادارے بشمول آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان کی مالی معاونت کے لیے بھی تیار نظر آرہے ہیں۔

تاہم اسحاق ڈار نے ان چہ مگوئیاں کو بھی مسترد کردیا ہے جس کے تحت پاکستان بانڈز پر واجب الادا رقم اور منافع ادا نہیں کرسکے گا اور اس میں کوئی توسیع کی جائے گی۔

سابق وزیرِ خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں پاکستان کا موجودہ معاشی بحران بڑی حد تک سیاسی عدم استحکام سے جڑاہے۔ حالیہ بحران کا براہِ راست تعلق معاشیات سے نہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ متاثر ہورہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی 'موڈیز نے بھی حال ہی میں پاکستان کی ریٹنگ کم کی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عام جمہوریتوں میں ایسے بحران جس میں ڈیڈلاک پیدا ہوجائے تو اس کا حل نئے انتخابات ہوتے ہیں اور ان کے خیال میں اگر الیکشن کا اعلان ہوجاتا ہے تو اس وقت بانڈز کی قیمت جو بڑھ رہی ہے اس میں استحکام آسکتا ہے۔ اور اس میں آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر ان بانڈز کی ادائیگی کر کے پاکستان نئے بانڈز بھی جاری کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔

کراچی میں قائم ایکویٹی ریسرچ کے ادارے 'ٹاپ لائن سیکیورٹیز' سے منسلک معاشی تجزیہ کار سعد ذکر کہتے ہیں آنے والے مہینوں میں بیرونی ادائیگیوں کو ممکن بنانے کے لیے حکومت نے درآمدات کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے یہی وجہ ہے کہ ہزاروں ایل سیز کھلنے کے بعد بھی اسٹیٹ بینک کی جانب سے درآمدات یا دیگر بیرونی ادائیگیوں کے لیے رقم جاری نہیں کی جارہی تاکہ ملک سے امریکی ڈالر کے اخراج کو روکا جاسکے۔

وائس آف امریکہ سےبات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے برآمدات کو بڑھانے کی بھی کسی حد تک کوشش کی ہے لیکن عالمی طور پر کساد بازاری اور مہنگائی کی لہر اس میں آڑے آرہی ہے۔

'معیشت کو سدھارنے کے لیے ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوگی'

تاہم وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا مزید کہنا ہے کہ 50 ہزار ڈالر تک جن چار ہزار کے قریب درآمد کنندگان کی ایل سیز کھل چکی ہیں ان کی رقوم کو آنے والے چند روز میں ریلیز کردیا جائے گا تاکہ وہ باہر سے اپنا سامان منگواسکیں۔

سابق وزیرِ خزانہ سلمان شاہ کے خیال میں یہ سب اقدامات بہرحال قلیل مدتی ہیں، اگر ملکی معیشت کو واقعی بہتر بنانا ہے تو اس کے لیے معیشت میں ساختی اصلاحات کے تکلیف دہ مرحلے سے گزرنا ہوگا۔

ان کے بقول معیشت کو رواں رکھنے کے لیے بجلی کے نظام کو ٹھیک کرکے اسے درآمدی مہنگے ایندھن سے چلانے کے بجائے مقامی طور پر تیار شدہ ایندھن اور قابل تجدید ذرائع سے پیدا کرنا ہوگا جس کے بعد ہی ایندھن کی درآمد پر خرچہ کم آئے گااور پیدواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔

سلمان شاہ کے خیال میں معیشت کو سدھارنے کے لیے ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوگی جس کے لیے بیرونی سرمایہ کاری لانا ہوگی تاکہ بہترین مصنوعات تیار کرکے ملکی منڈیوں کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ برآمدات بڑھائی جاسکیں۔

XS
SM
MD
LG