رسائی کے لنکس

غیرقانونی منافع کمانے والے 8 بینکوں کے خلاف تحقیقات، دو منی ایکسچینج کمپنیوں کے لائسنس منسوخ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے مرکزی بینک کے گورنر جمیل احمد نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں ڈالر کی قیمت سے غیر قانونی فائدہ اٹھانے والے نجی بینکوں کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں اور ڈالر کی قیمت سے غیر قانونی فائدہ اٹھانے والے دو منی ایکسچینج کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق نجی بینکوں کی جانب سے روپے کی قدر میں اتاڑ چڑھاؤ کے دوران ڈالر کی قیمت سے کھیلا جاتا رہا اور بینکوں نے ایل سیز کھولنے کے لیے انٹر بینک ریٹ سے اضافی رقم وصول کیں۔

کمیٹی اراکین کے اصرار پر اجلاس کو ڈالر ریٹ سے ناجائز پیسہ کمانے والے بینکوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کیا کہ ایچ بی ایل، یو بی ایل، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک، الائیڈ بینک، نیشنل بینک، میزان بینک، بینک الحبیب، اور حبیب میٹرو بینک غیر قانونی منافع کمانے والے بینکوں میں شامل ہیں۔

اس سے قبل اسٹیٹ بینک کے ترجمان نے بھی آٹھ بینکوں کے خلاف کارروائی کی تصدیق کی تھی۔ لیکن انہوں نے ڈالر کی سٹے بازی میں ملوث بینکوں کے نام ظاہر کرنے سے معذرت کر لی تھی۔

گورنر اسٹیٹ بینک کی جانب سے جن بینکوں کے نام سامنے آئے ہیں، ان کی طرف سے اب تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران ڈالر کی قیمت میں اضافے کے دوران نجی بینکوں نے 56 ارب روپے کا غیر قانونی منافع کمایا ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے گورنر اسٹیٹ بینک کو ڈالر کی قیمت سے غیر قانونی فائدہ اٹھانے والے بینکوں کے خلاف سخت تادیبی اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ کےد وران پاکستانی روپے کا شمار دنیا کی کمزور کرنسیوں میں ہورہا تھا اور ایک ڈالر 240 روپے تک فروخت ہو رہا تھا۔ لیکن حالیہ دنوں میں اس رجحان میں کمی واقع ہوئی ہے۔

منگل کو قیصر احمد شیخ کی زیرِ صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کمیٹی اراکین نے تاحال بینکوں کے خلاف کارروائی نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کیا تو وزیرِ مملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ ابھی معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہیں اس لیے یہ بہتر نہیں ہے کہ مالیاتی مارکیٹ کو کوئی غلط پیغام جائے۔

پاکستان کی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے: شہباز شریف
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:15 0:00

عائشہ غوث پاشا نے غیر قانونی منافع کمانے میں ملوث بینکوں کے خلاف تادیبی کارروائی میں سستی برتنے کے تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کے عمل اور شواہد کی دستیابی سے قبل کوئی تادیبی کارروائی نہیں کرسکتے۔البتہ جن بینکوں نے اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھایا ان کے خلاف ضرور کارروائی ہوگی اور قواعد کے مطابق انہیں بھاری جرمانے بھی کیے جائیں گے۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بتایا کہ مذکورہ آٹھ بینکوں کے ٹریڈ والیم اور مشکوک ترسیلات کی بنیاد پر تحقیقات کے علاوہ دیگر بینکوں کو بھی دیکھا جارہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نجی بینکوں کے علاوہ ڈالر کی قیمت سے غیر قانونی فائدہ اٹھانے والے منی ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف بھی تحقیقات کی جارہی ہیں اور اس ضمن میں اب تک دو کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کیے ہیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک کے بقول، "منی ایکسچینج کمپنیوں کو چھ ماہ تک اپنا ڈیٹا رکھنے کی ہدایت کررکھی ہے اور سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ان کی مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے۔ "

'تحقیقات سادہ ہیں، ایک ہفتے سے زیادہ وقت درکار نہیں ہوگا'

ایک سابق سینئر بینکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بینک عام طور پر ڈالر کو مہنگا بیچ کر اپنا منافع بناتے ہیں، جو بعض اوقات بینک کی پالیسی نہیں ہوتی لیکن متعلقہ بینک افسران اپنی کارکردگی اور بونس کے لیے بھی ایسا کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ انٹربینک کے مقابلے میں بعض بینکوں کی طرف سے پانچ سے 10 روپے مہنگا ڈالر بیچا جاتا رہا ہے، جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی قلت کا تاثر پیدا ہوا اور معاشی ماحول میں بے چینی میں اضافہ ہوا۔

ان کے بقول اس عمل کی تحقیقات کا بہت سادہ اور صاف طریقہ ہے جس میں زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ان بینکوں کی گھنٹوں کی بنیاد پر رابطہ کاری کو دیکھے گا تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ جعلی بنیاد پر ڈالر کی ضرورت پیدا کر رہے تھے۔

سابق سینئر بینکار نے کہا کہ اسی طرح 2013 میں بھی ایک دن میں ڈالر کی قیمت 103 سے 117 پر چلی گئی تھی جس پر اسٹیٹ بینک نے فوری اقدام لیا تھا اور اگلے روز ہی ڈالر واپس 104 روپے پر آگیا تھا۔

کمیٹی اجلاس میں اسحاق ڈار کی واپسی کا بھی تذکرہ ہوا اور ان کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر سوالات اٹھائے گئے۔

کمیٹی رکن برجیس طاہر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کہتا تھا کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے تو سیاسی صورتِ حال تو پہلے سے زیادہ خراب ہے تو پھر روپے کے مقابلے ڈالر کی قیمت کیسے گررہی ہے؟

انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے کے بعد سے ڈالر کی قیمت 12 سے 14 روپے گرچکی ہے اور انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈالر کو 200 روپے سے کم پر لائیں گے۔

انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ اسٹیٹ بینک کہتا ہے کہ ڈالر ان کے کنٹرول میں نہیں تو افغانستان میں وہ کیسے اسے قابو کیے ہوئے ہیں۔

کمیٹی ارکان کے پیٹرولیم لیوی میں کمی پر سوالات

قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اراکین نے پیٹرولیم لیوی میں حالیہ کمی کے حکومتی فیصلے کے آئی ایم ایف معاہدے پر اس کے اثرات کے بارے میں سوال پوچھا جس پر وزیرِ مملکت برائے خزانہ نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔

انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے دور میں پٹرولیم مصنوعات پر کچھ زائد لیوی عائد ہوگئی تھی جس میں کمی کی گئی ہے جب کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو سہ ماہی بنیادیوں پر پورا کیا جانا ہے اور اس میں ابھی دسمبر تک کا وقت ہے۔

کمیٹی کے رکن رمیش کمار نے اعتراض اٹھایا کہ عوام مہنگائی اور سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں اور حکومت اضافی لیوی عائد کر رہی ہے یہ کیسی مجرمانہ کوتاہی ہے؟ اس پر وزیرِ مملکت خزانہ نے کہا کہ وہ اس بارے مزید گفتگو نہیں کرنا چاہتیں البتہ پاکستان مکمل طور پر آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پر عمل پیرا ہے اور اس ضمن میں کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔

واضح رہے کہ حکومت نے 30 ستمبر کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 12 روپے سے زائد کی بڑی کمی کی تھی جس میں پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کی مد میں پانچ روپے کی کمی بھی شامل تھی۔

حکومت اس سے قبل فی لیٹر 37 روپے 42 پیسے پی ڈی ایل وصول کررہی تھی جسے کم کرکے 32 روپے 42 پیسے کیا گیاہے۔ حکومت نے یہ کمی ایسے وقت میں کی جب نئے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائے محض دو روز ہی ہوئے تھے۔

XS
SM
MD
LG