رسائی کے لنکس

پاکستان میں آٹا مہنگا کیوں ہو رہا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں سرکاری سطح پر وافر مقدار میں گندم کی خریداری کے باوجود عوام کو سستی قیمت پر آٹا دستیاب نہیں ہے۔ گزشتہ سالوں کی نسبت رواں برس بھی گندم کا پیداواری ہدف حاصل نہیں ہوا ہے۔

رواں برس گندم کی پیداوار کے وقت حکومت کی مقرر کردہ قیمت 1400 روپے فی من تھی اور اِسی نرخ پر حکومت نے کسانوں سے گندم خریدی۔

دوسری جانب فلور ملز مالکان نے 1600 روپے فی من کے حساب سے گندم کی خریداری جاری رکھی جس کے بعد آہستہ آہستہ گندم مارکیٹ سے غائب ہونے لگی۔

اِس وقت صوبۂ پنجاب سمیت پاکستان بھر میں گندم کی کمی کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ پنجاب میں گندم 2200 روپے فی من سے 2300 روپے فی من کے حساب سے دستیاب ہے۔

پاکستان میں وفاقی سطح پر سرکاری طور پر گندم خریدنے اور ذخیرہ کرنے والے ادارے پاکستان ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) اور چاروں صوبائی سطح پر گندم خریدنے والے ادارے گندم کی خریداری مکمل کر چکے ہیں۔

ماہرین کے مطابق نجی سطح پر آٹا بنانے والے کارخانے اپنے پاس کم از کم تین ماہ کی گندم کا ذخیرہ رکھتے ہیں تا کہ بازاروں میں آٹا ارزاں نرخوں پر دستیاب ہو۔ لیکن اِس بار اُن کے پاس گندم وافر مقدار میں موجود نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو وہ مہنگے داموں دستیاب ہے۔

ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر یہ صورتِ حال برقرار رہتی ہے تو رواں برس کے آخر میں یا آئندہ سال کے شروع میں پاکستان کو گندم کے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔

پنجاب میں گندم فی من 2200 سے 2300 روپے میں دستیاب ہے۔ (فائل فوٹو)
پنجاب میں گندم فی من 2200 سے 2300 روپے میں دستیاب ہے۔ (فائل فوٹو)

پاسکو کے فیلڈ جنرل مینیجر میجر ریٹائرڈ مظاہر اقبال کے مطابق وفاقی سطح پر گندم خریدنے کا ہدف آٹھ اعشاریہ دو ملین تھا۔ جس میں سے چھ اعشاریہ چھ ملین ہدف حاصل ہو سکا ہے۔

اُن کے بقول گندم خریدنے والے صوبائی اداروں کا بھی ہدف پورا نہیں ہو سکا جس کی مختلف وجوہات ہیں جس میں سب سے بڑی وجہ گندم کی امدادی قیمت میں ہونے والا اضافہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے میجر (ر) مظاہر اقبال نے کہا کہ گندم کی قیمت کاشت کار کو کم ملتی ہے لیکن حکومت اُسے امدادی قیمت دیتی ہے۔ لیکن اِس سال شروع میں ہی گندم کی قیمت عام بازاروں (اوپن مارکیٹ) میں بڑھ گئی تھی۔ جس کے باعث ڈیرھ ملین ٹن کا گندم خریداری کا ہدف حاصل نہ ہو سکا۔

انہوں نے بتایا کہ گندم کی خریداری کا ہدف حاصل نہ ہونے کے باوجود عوامی سطح سے چار ملین ٹن گندم خریدی گئی ہے اور رواں برس پاسکو نے پانچ لاکھ ٹن اضافی گندم خریدی ہے۔

فلور ملز مالکان کیا کہتے ہیں؟

پاکستان بھر میں گندم سے آٹا بنانے والے کارخانوں کی تنظیم آل پاکستان فلور ملز مالکان ایسوسی ایشن کے مطابق جتنی گندم بازار میں دستیاب تھی وہ ساری حکومت نے خرید لی ہے۔ جس کے باعث نجی سطح پر گندم دستیاب نہیں اور اگر ہے تو وہ بہت مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہے۔

فلور ملز مالکان ایسوسی ایشن کے صدر عاصم رضا کے مطابق اِس سال محکمۂ خوراک پنجاب نے صوبے بھر سے چالیس لاکھ پچاسی ہزار ٹن گندم خریدی ہے۔ جو گزشتہ سال کی نسبت آٹھ لاکھ ٹن زیادہ بنتی ہے۔

اُن کے بقول پاسکو نے تقریباً 12 لاکھ ٹن گندم خرید لی ہے جو گزشتہ سال کی نسبت رواں برس ایک لاکھ ٹن زیادہ ہے۔

ایسوسی ایشن کے صدر کے مطابق بیج بنانے والی تمام کمپنیاں اپنی خریداری صوبۂ سندھ سے کیا کرتی ہیں لیکن اس سال بیج بنانے والے اداروں نے بھی صوبۂ پنجاب سے پانچ لاکھ ٹن گندم خرید لی ہے۔ اِس کے علاوہ 21 لاکھ ٹن گندم اضافی خریدی گئی ہے جو بازار میں اضافی طور پر دستیاب تھی۔ اِس پر بھی حکومت آٹا مہنگا ہونے کا قصور وار آٹا بنانے والے کارخانوں کو ہی ٹھیراتی ہے تو بڑے تعجب کی بات ہے۔

عاصم رضا نے کہا کہ عام دنوں میں فلور ملز مالکان کے پاس سوا لاکھ ٹن گندم ہوتی ہے۔ یہی مقدار گزشتہ دو سالوں بھی موجود تھی لیکن اس مرتبہ گندم کی پیداوار مقرر کردہ ہدف کو حاصل نہیں کر سکی جو کہ گزشتہ سال کی نسبت 15 لاکھ ٹن کم ہے۔

پاسکو کے ایک اعلٰی افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت ماہِ اکتوبر میں خریدی گئی گندم کو عوام کے لیے دینا شروع کرتی ہے۔ اس سے قبل فلور ملز نئی گندم آنے پر چھ ماہ کا ذخیرہ اپنے پاس رکھ لیتی ہیں۔ لیکن اِس وقت فلور ملز کے پاس ذخیرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

افسر نے مزید بتایا کہ پنجاب اور سندھ کی حکومتیں فلور ملز کو گندم اس مقدار میں نہیں دے رہیں جو اُن کی طلب ہے۔

پاسکو کے مطابق حکومت گندم ذخیرہ کرنے کا ہدف پورا نہ ہونے کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے نجی برآمد کنندگان کے لیے آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔

پاسکو کا کہنا ہے کہ بیرونِ ممالک سے تقریباً تین لاکھ ٹن گندم خریدی جا چکی ہے اور آئندہ ایک ماہ تک چھ سے سات لاکھ ٹن گندم نجی شعبہ درآمد کرے گا۔ ضرورت پڑنے پر پاسکو بھی بیرون ممالک سے گندم خرید سکتا ہے۔

آٹا 66 سے 68 روپے فی کلو میں فروخت

مارکیٹ میں گندم کی کم دستیابی کا اثر چکی کے آٹے پر بھی دیکھنے میں آیا ہے۔

چکی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری عبدالرحمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چکی والا آٹا پنجاب بھر میں 63 روپے فی کلو گرام سے لے کر 65 روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت کیا جا رہا تھا جس میں اب تین روپے فی کلو گرام کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

عبدالرحمان نے بتایا کہ 63 روپے فی کلو گرام ملنے والا آٹا اب 66 روپے فی کلو جب کہ 65 روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت ہونے والا آٹا اب 68 روپے فی کلو کے حساب سے دستیاب ہے۔

اُن کے بقول، "پہلے بازار سے 1500 سے 1600 روپے فی من کے حساب سے ملنے والی گندم اب 2200 سے 2300 روپے فی من میں مل رہی ہے۔ اس صورتِ حال میں آٹے کی قیمت میں صرف تین روپے فی کلو اضافہ کیا ہے۔ ہمیں آٹے کی قیمت میں زیادہ اضافہ کرنا چاہیے تھا لیکن ہم نے صرف تین روپے فی کلو اضافہ کیا ہے۔"

پنجاب میں 20 کلو کے آٹے کا تھیلا 1150 روپے میں دستیاب ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ حکومتی سطح پر 20 کلو آٹے کا تھیلا 850 روپے میں فراہم کیا جا رہا ہے جس کی تشہیر سوشل میڈیا کے ذریعے کی جا رہی ہے۔

دکان داروں کے مطابق محکمۂ خوراک پنجاب اور ضلعی انتظامیہ کے افسران ان پر دباؤ ڈالتے کہ بیس کلو آٹے کا تھیلا آٹھ سو روپے میں فروخت کیا جائے لیکن اس قیمت پر آٹا مل مالکان انہیں فراہم نہیں کرتے۔

دکان داروں کے مطابق ملز مالکان نے اِس مرتبہ پہلی مرتبہ پچیس کلو آٹے کا تھیلا متعارف کرایا ہے جس کی قیمت 1385 روپے ہے۔

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں سینئر وزیر خوراک پنجاب عبدالعلیم خان سے رابطہ کرنا چاہا تو اسمبلی اجلاس کے باعث وہ دستیاب نہیں تھے۔ البتہ اُن کی جانب سے بھیجے گئے بیان کے مطابق صوبۂ پنجاب کے تمام علاقوں میں آٹا کنٹرول ریٹ پر وافر مقدار میں دستیاب ہے۔

ان کے بقول 20 کلو آٹے کے تھیلے کی 860 روپے اور 10 کلو کے تھیلوں کی 430 روپے میں فروخت کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح صوبے کے تمام اضلاع میں سرکاری نرخوں پر آٹے کی فراہمی جاری ہے۔

علیم خان نے دعویٰ کیا ہے کہ فلور ملز کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر آٹے کے تھیلوں کی بڑی تعداد مارکیٹ میں مہیا کی جا رہی ہے لیکن شہری مسلسل مہنگے آٹے کی شکایت کر رہے ہیں۔

انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ صوبے بھر میں منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت ترین کارروائیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں اور حکومت کسی قیمت پر ناجائز منافع خوری کی اجازت نہیں دے گی۔

سندھ میں آٹے کی صورتِ حال

سندھ کے وزیرِ اطلاعات ناصر حسین شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے میں آٹے کی صورتِ حال بہتر ہے اور گندم کی بھی کوئی قلت نہیں ہے جب کہ سندھ نے دیگر صوبوں کو بھی اُن کی درخواست پر گندم فراہم کی ہے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے راجہ ثاقب سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ میں آٹا دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سستا ہے۔

سندھ کے وزیرِ اطلاعات ناصر حسین شاہ کے مطابق صوبے میں گندم کی کوئی کمی نہیں ہے۔ (فائل فوٹو)
سندھ کے وزیرِ اطلاعات ناصر حسین شاہ کے مطابق صوبے میں گندم کی کوئی کمی نہیں ہے۔ (فائل فوٹو)

اُن کے بقول حکومت سندھ ہر سال ستمبر کے مہینے میں فلور ملز مالکان کو گندم جاری کرتی ہے مگر اُنہوں نے وفاق کے کہنے پر قبل از وقت گندم کا اجرا مل مالکان کو کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گندم کا بحران ماضی میں بھی سازش کے تحت پیدا کیا جا تا رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ناصر حسین شاہ نے کہا کہ افغانستان میں گندم اسمگلنگ کی اطلاعات تشویش ناک ہیں۔ ماضی میں بھی بیرون ملک سے ناقص کوالٹی کی گندم منگوائی گئی تھیں۔ اگر اس بار بھی ایسا ہوا ہے تو یہ ناقابلِ برداشت ہے۔

خیبر پختونخوا کی صورتِ حال

خیبر پختونخوا سے وائس آف امریکہ کے نامہ نگار شمیم شاہد کے مطابق حالیہ دنوں میں صوبے بھر میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

صوبۂ خیبر پختونخوا میں بیس کلو آٹے کا تھیلہ 950 روپے سے 1150 روپے میں دستیاب ہے۔

شمیم شاہد کے مطابق پاکستان کا افغانستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں کے کھولنے کے بعد گندم کی سپلائی بھی شروع ہو گئی ہے۔ افغانستان میں فلور ملز نہیں ہے جس کے باعث افغانستان کو پاکستان سے آٹا فراہم کیا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG