رسائی کے لنکس

حکومت کا مستقل قانون سازی کے بجائے آرڈیننس پر انحصار کیوں؟


حزب اختلاف کی جماعتیں صدارتی حکم ناموں کے ذریعے حکومتی امور چلانے کو منتخب ایوان کی توہین قرار دے رہی ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتیں صدارتی حکم ناموں کے ذریعے حکومتی امور چلانے کو منتخب ایوان کی توہین قرار دے رہی ہے۔

پاکستان میں حکومت مستقل قانون سازی کے بجائے عارضی قانون سازی یعنی آرڈیننس یا صدارتی حکم ناموں کے ذریعے حکومتی امور چلانے کو ترجیح دے رہی ہے۔ جب کہ حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت کے اس اقدام کو منتخب ایوان کی توہین قرار دے رہی ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آٹھ نئے قوانین آرڈیننس کے ذریعے نافذ کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 89 کے مطابق صدر مملکت دو صورتوں میں، جب کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس نہ چل رہا ہو اور صورت حال فوری طور پر قانونی بل کے نفاذ کی متقاضی ہو تو آرڈیننس کی منظوری دے سکتے ہیں۔

حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے بعد سے آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کرنے پر اپوزیشن، قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔

دنیا کے زیادہ تر جمہوری ممالک میں حکم ناموں کے ذریعے قانون سازی کی قانون میں گنجائش نہیں ہے تاہم پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جن کے آئین میں صدارتی حکم نامے کے ذریعے قانون سازی کی جاسکتی ہے۔

حکومت کو آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کرنے پر اپوزیشن، قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔
حکومت کو آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کرنے پر اپوزیشن، قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان صحافیوں کے ساتھ گفتگو کے دوران بھی اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ موجودہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کی بجائے آرڈیننس کے ذریعے قانونی سازی کو ترجیح دے رہی ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کی اتحادی حکومت سینیٹ میں اکثریت نہیں رکھتی تاہم وہ اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کی بجائے آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کے حق میں ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما و سابق وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اب تک جو آرڈیننس جاری کیے ان میں کوئی بھیی "قومی ہنگامی صورتحال" سے متعلق نہیں تھے جبکہ اس عرصے میں حکومت نے صرف دو قانونی بل پارلیمیںٹ میں پیش کیے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمان کی موجودگی میں آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی جمہوریت اور پارلیمانی روایات کے منافی ہے۔

اُن کے بقول، حکومت دانستہ طور پر پارلیمان کو غیر مؤثر بنانا چاہتی ہے اور یہ رجحان جمہوریت کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوگا۔

قانون سازی کے لیے بل کی منظوری کے لیے حکومت کو سینیٹ میں عددی اکثریت حاصل نہیں ہے۔
قانون سازی کے لیے بل کی منظوری کے لیے حکومت کو سینیٹ میں عددی اکثریت حاصل نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے واضح کیا کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں قانون سازی کے لیے حکومت سے تعاون کرنے کو تیار ہیں لیکن حکومت پارلیمان کی نفی کرتے ہوئے ذاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔

وزارت پارلیمانی امور کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومتوں کے دوران ایک سال میں اوسطاً 26 آرڈیننس جاری کیے جاتے رہے ہیں۔

سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز کہتے ہیں کہ آرڈیننس کا اجراء غیر آئینی یا خلاف قوائد کیسے ہوسکتا ہے جبکہ آرٹیکل 89 کہتا ہے کہ صدر مملکت فوری ضرورت کی قانون سازی کی صورت میں آرڈیننس کی منظوری دے سکتے ہیں۔

شبلی فراز کہتے ہیں کہ حکومت کا آرڈیننس پر انحصار اس وجہ سے بھی ہے کہ سینیٹ میں عددی اکثریت رکھنے والی اپوزیشن جماعتیں قانون سازی کے عمل میں تعاون نہیں کر رہیں جس کے باعث اصلاحات کا عمل متاثر ہورہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ آرڈیننس قانون سازی کا عارضی راستہ ہے کیونکہ اسے زیادہ سے زیادہ آٹھ ماہ کے بعد پارلیمنٹ سے منظوری درکار ہوتی ہے ایسے میں آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کے واپس ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

شبلی فراز کے مطابق وہ اپوزیشن کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ مفاد عامہ کی قانون سازی میں تعاون کریں۔ ماضی کی حکومتیں بھی آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کرتی رہی ہیں لہذا اپوزیشن کا اعتراض ناقابل فہم ہے۔

خیال رہے کہ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی آرڈیننس کے ذریعے حکومتی امور چلانے کو جمہوری اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں قانون سازی منتخب ایوان کا حق ہے۔

اپنے ششماہی اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں غیر سرکاری تنظیم کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے کردار کو کم کرنے کے حوالے سے خطرناک علامات دیکھی جا رہی ہیں۔

دوسری جانب سینیٹ میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی جانب سے آرڈیننس کے اجراء کے خلاف ایک قرارداد جمع کرائی گئی ہے جس میں آرڈیننسز کی وفاقی کابینہ سے منظوری کو آئین سے انحراف کے مترادف قرار دیتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ آرڈیننس کی بجائے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کی جائے۔

خیال رہے کہ سینیٹ کسی بھی آرڈیننس کو کثرت رائے کی بنیاد پر مسترد کرسکتی ہے۔

پارلیمانی تحقیق کے ادارے سے وابستہ یاسمین رحمٰن کہتی ہیں کہ آرڈیننس کے اجرا کو اگرچہ غیر قانونی نہیں کہا جاسکتا تاہم اس طریقہ کار کے غیر ضروری اور متواتر استعمال سے پارلیمانی نظام غیر فعال ہوجاتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ کہنا کہ اپوزیشن تعاون نہیں کررہی اس لیے آرڈیننس پر انحصار ہے، یہ غیر معقول بات ہے کیونکہ کوئی اپوزیشن بھی حکومت سے تعاون نہیں کرتی لیکن تعاون لینے کے طریقے ہوتے ہیں۔

خیال رہے کہ حکومت اور اپوزیشن الیکشن کمیشن کے ممبران کے تقرر کے حوالے سے اتفاق رائے میں بھی ناکام رہے تھے جس کے باعث ممبران کی تقرری کا عمل آئینی بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

XS
SM
MD
LG