رسائی کے لنکس

وکی لیکس کے انکشافات اور نتائج پر بحث


وکی لیکس ایک ویب سائٹ ہے جو ایسے کاغذات کو جو کبھی خفیہ تھے آ ن لائن پوسٹ کرتی ہے۔ اس کے ارکان کا کہنا ہے کہ وہ حقیقت کو سامنے لانے اور جوابدہی کے فروغ کے لیے ایسا کرتے ہیں ۔ وکی لیکس نے حال ہی میں افغانستان میں گذشتہ چھ سال کے واقعات کے بارے میں امریکی فوج اور میرین کور کے 75,000 کاغذات جاری کر دیے ہیں جس پر امریکہ، برطانیہ اور پاکستان کے عہدے دار سخت ناراض ہیں۔

وکی لیکس ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کی ابتدا سرگرم کارکنوں کے درمیان مکالمے کی شکل میں ہوئی جو انسانی مصائب کم کرنا چاہتے تھے۔اس کا کہنا ہے کہ ہماری تنظیم با اصول طریقے سے معلومات کو افشا کرتی ہے۔ 2007 سے اب تک وکی لیکس نے ہزاروں دستاویزات انٹرنیٹ پر پوسٹ کی ہیں۔ ویب سائٹ کے بانی جولیان اسانگے خود کو ایک کارکن سمجھتے ہیں جن کا خاص مقصد معلومات کو عوامی دسترس میں لانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا عملہ تقریباً 800 پارٹ ٹائم کارکنوں پر مشتمل ہے جو کام کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کے حامیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

اسانگے کہتے ہیں’’میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں سب سے بڑا اندیشہ یہ ہے کہ ہم بہت جلد، بہت زیادہ کامیابی حاصل کر لیں گے اور ہم اس میٹیریل کے ساتھ انصاف نہیں کر سکیں گے جو ہم تک پہنچ رہا ہے ۔فی الحال ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے ۔‘‘

وکی لیکس غیر تجارتی ویب سائٹ ہے جس کا مقصد منافع کمانا نہیں ہے ۔اسانگے کہتے ہیں کہ گذشتہ چند مہینوں میں ہمیں عام لوگوں کی زبردست حمایت ملی ہے۔’’ہم نے عام لوگوں سے دس لاکھ ڈالر جمع کر لیے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنا کام مکمل آزادی سے کر سکتے ہیں۔ بڑی تنظیموں کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے ۔لیکن یہ بات بھی ہے کہ ہم عوام کے سامنے جوابدہ ہیں کیوں ہمیں سارا پیسہ براہ راست عوام سے ہی ملتا ہے، اشتہار دینے والوں یا فاؤنڈیشنوں سے نہیں۔‘‘

سائمون شنائڈر عالمی سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے نئی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وکی لیکس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنے ذرائع کی حفاظت کرتی ہے ۔لیکن انٹیلی جنس کے سابق تجزیہ کار باب آئرز کے خیال میں وکی لیکس سے کسی خیر کی توقع کرنا عبث ہے ۔

وہ وکی لیکس کی طرف سے حال ہی میں افغانستان کے بارے میں امریکی فوج کے 75,000 کاغذات کو منظر عام پر لانے کے حوالے سے کہتے ہیں’’جو معلومات پوسٹ کی گئی ہیں ان سے براہ راست امریکہ کے لیےخطرہ پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے ان جنگجوؤں کے لیے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے جو اس علاقے میں لڑ رہے ہیں۔اس سے افغانستان، پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو تعلق قائم ہے، اس میں عدم استحکام کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ اس سے کسی سطح پر انٹیلی جنس کمیونٹی کے لیے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے اگر معلومات فراہم کرنے والے ذرائع کو افشا کر دیا جائے ۔‘‘

وکی لیکس کے بانی آسانگے کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم نقصان کم سے کم کرنے کے ایک طریقے پر عمل کرتی ہے۔ اس میں ہر ایسی معلومات یا ذریعے کی شناخت مٹا دی جاتی ہے یا روک لی جاتی ہے جس سے دستاویز میں دیے ہوئے کسی شخص یا ذریعے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہو۔ آسنگے کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے انھوں نے افغانستان سے متعلق 15,000 سے زیادہ کاغذات جاری نہیں کیے ۔انھوں نے جو کچھ جاری کیا وہ سات مہینے پرانا تھا اور اس میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جن کی وجہ سے نیٹو کی فوجوں کو نقصان پہنچ سکے ۔

باب آئرز یہ بات تسلیم نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کاغذات سات مہینے پرانے ہیں۔ سات مہینوں میں سپاہی اپنا گشت کرنے کا انداز نہیں بدلیں گے۔ وہ اب بھی اسی طرح پیٹرول کریں گے۔ آ پ نے کیا یہ ہے کہ دشمن کو ایسی معلومات فراہم کر دی ہیں جن سے اسے یہ منصوبہ بنانے میں مدد ملے گی کہ جب نیٹو کی فورسز افغانستان میں پٹرولنگ کر رہی ہوں، تو ان پر حملہ کس طرح کیا جائے۔‘‘

آئرز کا خیال ہے کہ امریکی حکومت کووکی لیکس کے بارے میں کچھ نہ کچھ کرنا پڑ ے گا۔ امریکی قانون کے تحت خفیہ معلومات کو افشا کرنا غیر قانونی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بڑا مشکل سوال ہے کہ وکی لیکس جیسی سائٹ سے کیسے نمٹا جائے ۔ کیا وہ جو کچھ کر رہےہیں وہ عام لوگوں کی بھلائی کے لیے ہے؟ کیا وہ سنسنی پھیلا رہے ہیں؟ کیا وہ عوامی مفاد کو خطرے میں ڈال رہے ہیں؟ کیا وہ اپنی کارروائیوں سے دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں؟ یہ وہ چیزیں جن پر اگلے چھ مہینوں میں توجہ دی جائے گی اور جنہیں طے کیا جائے گا۔

سینسر شپ کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے وکی لیکس نے خفیہ کاغذات تین ملکوں، امریکہ، جرمنی، اور برطانیہ میں جاری کیے ۔

XS
SM
MD
LG