سندھ میں جماعتِ احمدیہ کی عبادت گاہوں پر حملے، ملزمان گرفتار نہ ہو سکے

فائل فوٹو

سندھ کے مختلف علاقوں میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران جماعتِ احمدیہ کی عبادت گاہوں پر حملوں میں توڑ پھوڑ اور انہیں نذرِ آتش کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔

کراچی، میرپور خاص اور عمر کوٹ میں حملوں کے بعد مقدمات درج ہوئے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے ترجمان کے مطابق ان حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کا حالیہ واقعہ دو فروری کو کراچی کے علاقے صدر میں پیش آیا جب شرپسندوں نے احمدیہ ہال کے مینار توڑ ڈالے۔

جماعت احمدیہ کے ترجمان نے الزام عائد کیا کہ توڑ پھوڑ کا یہ واقعہ پولیس کی موجودگی میں ہوا تھا۔

اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں تین فروری کو عمرکوٹ میں نور نگر میں چند نامعلوم افراد دیوار پھلانگ کر جماعتِ احمدیہ کے عبادت گاہ میں داخل ہو گئے اور پیٹرول چھڑک کر عمارت کو نذرِ آتش کر دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں عبادت گاہ کے ہال میں موجود صفیں اور کرسیاں جل گئی تھیں۔

اسی روز ایک اور واقعہ ضلع میرپورخاص کے مقام گوٹھ چوہدری جاوید احمد میں پیش آیا جہاں نامعلوم افراد نے جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کے میناروں کو توڑ دیا اور عبادت گاہ کو آگ لگادی تھی۔

جماعتِ احمدیہ کے مطابق میرپورخاص شہر کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن میں بھی چار فروری رات ساڑھے آٹھ بجے نامعلوم افراد نے جماعتِ احمدیہ کی عبادت گاہ پر فائرنگ کی جس کی گولیاں دروازے اور دیواروں پر لگیں تاہم اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

اس سے قبل 18 جنوری کو کراچی کے علاقے مارٹن کوارٹر میں بھی ایک ایسی ہی کارروائی میں بعض افراد نے سیڑھی لگا کر جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ میں داخل ہوکر میناروں کو نقصان پہنچایا جب کہ پولیس کے پہنچتے پر حملہ آور موقعہ سے فرار ہوگئے۔

’مقدمات درج کر لیے ہیں، قانون کے مطابق کارروائی ہو گی‘

حکومتِ سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان واقعات پر مقدمات درج کر لیے ہیں اور قانون کے مطابق ملزمان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ لیکن اب تک ان واقعات میں ملوث کسی ملزم کو گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔

سندھ میں ہونے والے ان حالیہ واقعات سے صوبے میں رہنے والی جماعتِ احمدیہ کے عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔


’حملے سوچی سمجھی سازش معلوم ہوتے ہیں‘

پاکستان میں احمدیہ برادری کے ترجمان عامر محمود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان حملوں کو ایک منظم اور سوچی سمجھی اسکیم قرار دیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد اور عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔

عامر محمود کا کہنا تھا کہ یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ اس سلسلے میں انہوں نے 2014 میں جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں بینچ کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم کا بھی حوالہ دیا۔

ان کے مطابق مذکورہ فیصلے میں کئی رہنما اصولوں کے ساتھ عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے اسپیشل ٹاسک فورس بنانے کا بھی کہا گیا تھا جس پر آج تک عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

عامر محمود کا کہنا تھا کہ عبادت گاہوں کی حفاظت نہ صرف ریاست کی ذمے داری ہے بلکہ اس کے ساتھ معاشرے کے اہل دانش کا بھی فرض ہے کہ وہ لوگوں میں اس حوالے سے شعور اجاگر کریں اور بلا تفریق عبادت گاہوں اور جان و مال کے تحفظ کویقینی بنائیں۔

جماعتِ احمدیہ کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے پر انسانی حقوق کے مختلف گروپس اور سرگرم کارکنان نے بھی تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔

عمر کوٹ میں بھی جماعتِ احمدیہ کی عبادت گاہ کو نشانہ بنانے کا واقعہ پیش آیا ہے۔

’واقعات میں تیزی خطرناک رحجان‘

کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان (ایچ آر سی پی) کی کونسل ممبر زہرا یوسف کا کہنا ہے حالیہ دنوں میں ان واقعات میں تیزی سے اضافے سے ایک خطرناک رحجان کی نشان دہی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی خاص کمیونٹی کے مقدس مقامات پر اس طرح ہجوم کے حملے اور توڑ پھوڑ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک مزید عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان کے بقول، سندھ میں ہونے والے حالیہ متعدد واقعات ان حقائق کا واضح ثبوت ہے۔

زہرا یوسف کا کہنا تھا کہ ماضی میں پنجاب میں جماعتِ احمدیہ کے خلاف جرائم اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں لیکن اب یہ رحجان سندھ میں بھی پروان چڑھ رہا ہے۔

ان کاکہنا تھا کہ اگرچہ مذہبی اقلیتوں سے متعلق سندھ میں برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی کی پالیسی کی کافی بہتر رہی ہے تاہم حکومت کو فوری طور پر ان واقعات کا تدارک کرنے کے لیے سخت اقدامات کرنے چاہییں۔

’ قانون میں گنجائش نہیں‘

اسی معاملے پر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل شعب النبی ایڈووکیٹ نے کہا کہ قانون میں احمدیوں کی عبادت گاہ پر اسلامی طرز تعمیر سے مشابہت کو طاقت کے ذریعے مٹانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

SEE ALSO: احمدی کمیونٹی کی دربدری کے 75 سال 'ایسے لگتاہے ایک رات میں ہی کسی نے سڑک پر لا بٹھایا ہو'

ان کا کہنا تھا کہ صرف حکومت کو یہ اختیار تھا کہ متعلقہ قوانین کو نافذ کرے تاکہ امن و امان کی صورتِ حال میں خرابی سے بچا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں رائج قوانین کے تحت احمدی، قادیانی یا لاہوری گروپ وغیرہ کوئی ایسی مشابہت اختیار نہیں کرسکتے جس سے ان کے مسلمان ہونے کا تاثر ملے۔

ان کے مطابق، اس کے باوجود اگر کسی کو احمدی عبادت گاہوں پر تعمیر کیے گئے میناروں پر کوئی اعتراض ہے جس کی وجہ سے اس عمارت کے عام مسلمانوں کی مسجد ہونے کا تاثر ملتا ہے تو اس پر صرف حکومت ہی کارروائی کرسکتی ہے۔

جماعتِ احمدیہ خود پر مذہبی علامتوں کے استعمال سمیت دیگر پابندیوں سے متعلق پاکستان کے قوانین کو مذہبی آزادی کے منافی قرار دیتی ہے۔