ایکسچینج کمپنیوں کو نقد ڈالر درآمد کرنے کی اجازت

فائل

اسٹیٹ بینک کے طرف سے منگل کو رات گئے جاری کیے جانے والے ایک سرکلر میں اس کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی کہ یہ فیصلہ کس وجہ سے کیا گیا ہے۔

پاکستان کے مرکزی بینک 'اسٹیٹ بینک آف پاکستان' نے ملک میں غیر ملکی کرنسی کے لین دین سے منسلک کمپنیوں کو منظور شدہ کرنسیوں کی برآمد سے حاصل ہونے والے ڈالرز کو نقد کی صورت میں پاکستان لانے کی اجازت دے دی ہے۔

واضح رہے کہ قبل ازیں منظور شدہ غیر ملکی کرنسیوں کو برآمد کرنے پر حاصل ہونے والے ڈالرز کا صرف 35 فی صد نقد شکل میں ملک میں لا یا جا سکتا تھا جبکہ باقی 65 فی صد ڈالرز کو غیر ملکی کرنسی کے لین دین سے وابستہ کمپنیاں بینکنگ چینلز کے ذریعے ملک میں لا سکتی تھی۔

اسٹیٹ بینک کے طرف سے منگل کو رات گئے جاری کیے جانے والے ایک سرکلر میں اس کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی کہ یہ فیصلہ کس وجہ سے کیا گیا ہے۔

تاہم یہ فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حالیہ ہفتوں میں ملک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو ررواں ہفتے بھی جاری رہا اور بدھ کو اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ 113 روپے 50 پیسے تک پہنچ گیا۔

کرنسی کے لین دین سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اس پابندی کی وجہ سے انہیں بعض اوقات بینکوں سے ڈالر کے حصول میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ان کے بقول اس وجہ سے اوپن مارکیٹ میں مناسب مقدار میں ڈالر دستیاب نہ ہونا اوپن مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافے کا باعث بنا۔

غیر ملکی کرنسی کے کاروبار سے وابستہ کمپنیوں کی تنظیم 'ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان' کے عہدیدار ظفر پراچہ نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسٹیٹ بینک سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ منظور شدہ کرنسیوں کی برآمد کے بدلے میں ملک میں نقد ڈالر لانے پر عائد حد کو ختم کردیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ منگل کو اسٹیٹ بنک کے عہدیداروں سے ہونے والی ملاقات کے بعد اسٹیٹ بینک نے ان کا مطالبہ مانتے ہوئے انہیں ملک میں منظور شدہ کرنسی کی برآمد پر حاصل ہونے والے ڈالرز کو نقد شکل میں پاکستان لانے کی اجازت دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بظاہر یہ فیصلہ ملک میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ہونے والی بتدریج کمی کی وجہ سے کیا گیا ہےاور ان کے بقول اس کی وجہ سے آئندہ دو ہفتوں کے دوران روپے کی قدر میں بہتری آئے گی۔

اقتصادی امور کے ماہر عابد سلہری نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اسی صورت کمی ہوتی ہے جب ڈالر کی سپلائی کے مقابلے میں طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔

"اس سے قبل ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم تھی تو وہ صرف اسی وجہ سے تھا کہ جب بھی دباؤ پڑتا تھا تو اسٹیٹ بینک اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو استعمال کرتے ہوئے مارکیٹ میں ڈالر شامل کرتا تھا۔ اس وجہ سے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں استحکام تھا۔ اب اسٹیٹ بینک خود یہ کام نہیں کرے گا۔ اس نے مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دیا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ غیر ملکی کرنسی کے لین دین سے وابستہ نجی کمپنیاں روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے میں کس قدر اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔"

دوسری طرف عالمی کریڈیٹ ریٹنگ ایجنسی 'موڈیز' نے کہا ہے کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ہونے والے پانچ فی صد اضافے کے ساتھ روپے کی قدر کو ممکنہ طور مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

موڈیز کا مزید کہنا ہے کہ اگر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید کمی ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے ملک کے مرکزی بینک کے لیے ملک میں افراطِ زر کی شرح میں ہونے والے اضافے سے نمٹنا ایک چیلنج ہوگا۔ تاہم اگر روپے کی قدر میں ہونے والی کمی پانچ فی صد تک ہی محدود رہتی ہے تو اس کے طویل المدتی اثرات پاکستانی معیشت پر بہتر ہوں گے۔

عابد سلہری نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے حکومت یہ چاہیے گی کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مزید کم نہ ہو اور ان کے بقول حکومت کی کوشش ہو گی کہ ڈالر کی درآمد کی اجازت دینے جیسے عارضی اقدامات سے روپے کی قدر کو مستحکم رکھا جائے۔

حالیہ برسوں میں پاکستان کی برآمدات میں ہونے والی کمی کی وجہ سے بعض حلقوں کی طرف سے حکومت کو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو کم کرنے کا مشورہ بھی دیا جاتا رہا ہے تاکہ برآمدات میں اضافہ ہو سکے۔

اس کے برعکس بعض حلقوں کی رائے تھی کہ ڈالر کی قدر میں ہونے والی کمی کی وجہ سے ملک پر نہ صرف بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھے گا بلکہ ملک میں افراطِ زر کی شرح میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔