منجمد ایرانی اثاثوں کی واپسی سے قبل ہمیں ہرجانہ دلایا جائے، سابق امریکی فوجیوں کا بائیڈن کو خط

واشنگٹن میں دوسری جنگ عظیم کی یادگار پر سابق فوجی اور ان کے عزیز و احباب جمع ہیں۔ گیارہ نومبر 2021

ایران اور اس کے حلیفوں کے حملوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والے ایک ہزار سے زائد امریکی فوجیوں اور ان کے اہل خانہ نے صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کے دوران اس کے منجمد اثاثے جاری کرنے کرنے کے کسی ممکنہ سمجھوتے سے پہلے اس میں سے متاثرین کے معاوضے دلائے جائیں۔

سابق فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے صدر جو صدر بائیڈن کو پچھلے ہفتے لکھے جانے والے خط میں، جس کی نقل وائس آف امریکہ نے حاصل کی ہے کہا گیا ہے کہ بائیڈن کے اس نقطہ نظر کو آگے بڑھاتے ہوئے کہ "ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار بنانے اور حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے"،ہم سمجھتے ہیں کہ منجمد فنڈز کو اس وقت تک جاری نہیں ہونا چاہئے، جب تک ایران اور اس کے حلیفوں کی دہشت گردی کے متاثرہ تمام لوگوں کو فیصلے کے مطابق تخمینہ شدہ لگ بھگ 60 ارب ڈالر کا معاوضہ ادا کر کے مطمئن نہ کر دیا جائے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ " ہمارے خیال میں منجمد ایرانی فنڈز میں سے اس وقت تک ایک ڈالر بھی ایرانی حکومت کو نہ دیا جائے جب تک کہ امریکی متاثرین کو ان کا معاوضہ مل نہیں جاتا"۔

خط میں بائیڈن سے کہا گیا ہے کہ وہ اس مسئلے سے براہ راست متاثرہ لوگوں میں سے کچھ سے ملیں اور ایران کو ہزاروں امریکیوں کی ہلاکتوں اور معذوریوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کی ان کی کوششوں کی حمایت کریں۔

امریکی حکام نے کہا ہے کہ عراق جنگ میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا نے سینکڑوں امریکی فوجیوں کو ہلاک کیا جب کہ ایران اس دعوے کی تردید کرتا ہے۔

SEE ALSO: مشرقی شام میں امریکی فوجی اڈے پر راکٹ حملہ، کوئی ہلاک و زخمی نہیں ہوا

ایران نے 2020 میں عراق میں بین الااقوامی فورسز کے ایک اڈے پر حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا تھا، جس میں ایک سو سے زائد امریکی فوجی زخمی ہوئے تھے اور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا عراق اور شام میں امریکی فورسز کو راکٹوں اور مسلح ڈرونز سے مستقل نشانہ بناتی رہی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اتوار کو "سی بی ایس" کے ٹیلی ویژن پروگرام" فیس دی نیشن " میں کہا کہ انتظامیہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے پرعزم ہے اور انھیں یقین ہے کہ سفارت کاری اس کے لئے بہترین طریقہ ہے، لیکن وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔

امریکہ اور یورپی طاقتیں اس وقت ویانا میں ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے معاملے پر بات چیت کر رہی ہیں جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا ہے۔

2018 میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اس معاہدے سے باہر نکال لیا تھا اور ایران پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں، جس سے تہران کی بیرون ملک اپنے اثاثوں تک رسائی ختم ہو گئی تھی۔

ایران نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ خیرسگالی کی علامت کے طور پر منجمد اربوں ڈالر کے اثاثے بحال کر دے۔ گزشتہ ہفتے امریکی محکمہ خزانہ نے ایرانی منجمد اثاثوں کے ایک چھوٹے سے حصے کو پابندیوں سے استثنیٰ دے کر جنوبی کوریا کو ایک ایرانی کمپنی سے واجب الاادا کم سے کم 63 ملین ڈالر ادا کرنے کی اجازت دی تھی۔

یہ اقدام ویانا میں ہونے والے جوہری مذاکرات میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان اعتماد بڑھانے اور 2015 کے معاہدے کی بحالی کے لیے پیش رفت کے طور پر کیا گیا تھا۔