جنوبی وزیرستان: سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر کے اغوا پر دوسرے روز بھی ہڑتال

فائل فوٹو

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے ڈاکٹر کے اغوا کے بعد ضلع بھر میں ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی ہڑتال دوسر ے روز بھی جاری ہے۔

جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہر وانا کے سرکاری اسپتال سے بدھ کے روز ٹی بی کنٹرول کے افسر ڈاکٹر نور حنان وزیر کو اغوا کیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق نامعلوم افراد نے انہیں چھٹی کے بعد اسپتال سے گھر جاتے ہوئے اغوا کیا۔ کسی گروہ یا تنظیم نے ڈاکٹر نور حنان وزیر کے اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

ڈاکٹرز اور مقامی حکام خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ انہیں شدت پسند تنظیم نے اغوا کیا ہے۔

ڈاکٹر نور حنان کے اغواء کے ردعمل میں جمعرات کی صبح وانا کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز اسپتال سمیت جنوبی وزیر ستان کے تمام تر سرکاری اور نجی اسپتالوں سے منسلک ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے نے ہڑتال کی ہے۔

ہڑتال کے پہلے روز تمام تر سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی سروسز معطل رہیں تاہم بعد ازاں ضلعی انتظامیہ کی درخواست پر اسے بحال کیا گیا۔

وانا کے ہیڈ کوارٹر اسپتال کے ڈاکٹرز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی ہڑتال جمعے کو دوسرے روز بھی جاری ہے۔

ڈاکٹرز کے مطابق ہڑتال صرف سرکاری اسپتالوں میں ہی نہیں بلکہ ضلعے کے نجی اسپتال بھی بند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نور حنان وزیر کی بازیابی اور دیگر ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کی حفاظت یقینی بنانے تک ہڑتال جاری رہے گی۔

علاوہ ازیں ڈاکٹر نور حنان وزیر کی بحفاظت بازیابی کے لیے سیاسی جماعتوں نے جمعے کے روز احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ جس میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے کارکن شریک تھے۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت علی یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کے اغوا کے فوری بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کی جلد بحفاظت بازیابی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس علاقے میں امان بحال ہوا ہے ۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر نور حنان وزیر کا تعلق بھی وانا ہی کے ایک معروف مذہبی اور سیاسی گھرانے سے ہے۔

چند برس قبل ان کے والد نور محمد دہشت گردی کے ایک واقعے میں ہلاک ہوئے تھے۔ وہ جمعیت علماء اسلام (ف) سے وابستہ اور سابق رکن قومی اسمبلی تھے۔