امریکہ طالبان مذاکرات: افغان حکومت کو تحفظات کیوں؟

  • شہناز نفيس

فائل

سترہ برس سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کی غرض سے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امریکی وفد اور طالبان نمائندوں کے درمیان بات چیت کا اگلا دور قطر میں رواں ماہ متوقع ہے۔

اس بات چیت سے ایک طرف اگر امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں تو دوسری جانب افغان حکومت سمیت عوام بھی مذاکرات کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی اور دیگر افغان عہدیدار طالبان کے ساتھ بات چیت کے وقت افغان حکومت کی مذاکرات کی میز پر موجودگی ضروری خیال کرتے ہیں۔ صدر اشرف غنی بارہا کہہ چکے ہیں کہ افغانستان اور طالبان کے درمیان جو امن معاہدہ ہوگا اُس میں اُن کے ملک کے آئین اور قانونی طریقہٴ کار کے تقاضوں کی حرمت کا خیال رکھنا لازم ہوگا، اور یہ کہ صرف افغان قیادت والا مکالمہ ہی ملک میں غیر ملکی فوجوں کی موجودگی سے متعلق کسی بات کا تعین کر سکے گا۔

ایک اعلیٰ افغان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کی اردو سروس کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ افغان حکومت امریکہ۔طالبان مذاکرات کے خلاف نہیں۔ تاہم، وہ چاہتے ہیں کہ حتمی امن معاہدہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان طے ہو۔

افغان عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی حکومت طالبان کو موجودہ نظام کے لئے جو اٹھارہ برس کی کوششوں سے وجود میں آیا ہے، ایک خطرے کے طور پر دیکھتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ امن ایسی شرائط پر قائم ہو جس سے افغان معاشرے کے لیے حاصل کی گئی کامیابیاں متاثر نہ ہوں۔

اسکے علاوہ افغان عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ایک خود مختار افغانستان کے خواہشمند ہیں اور نہیں چاہتے کہ کوئی بھی ہمسایہ ملک طالبان کے ذریعے افغانستان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے۔ اُنھوں نے طالبان کی حمایت روکنے کے لیے امریکہ پر پاکستان کے خلاف سخت کارروائی نہ کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔

ایک سوال کے جواب میں، افغان عہدیدار کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے ہر دور کے بعد امریکہ افغان حکومت کو ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔

دوسری جانب، واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک جنوبی ایشیا کے امور کے ایک ماہر، احمد ماجد یار کہتے ہیں کہ دنیا میں بیشتر تنازعات کا خاتمہ مذاکرات سے ہی ہوا ہے اور افغان حکومت کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ امریکہ لامحدود وقت کے لئے افغانستان میں مقیم نہیں رہ سکتا۔ ان کے بقول، امریکہ افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کر چکا ہے اور فریقین اس پر متفق ہیں کہ سترہ برس سے جاری اس لڑائی کا حل طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ہے۔

ماجد یار کہتے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان کو طالبان کی حمایت سے روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ لیکن، وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات صرف افغانستان تک محدود نہیں بلکہ خطے میں امریکہ کے کئی اور مفادات ہیں جن کے حصول کے لیے امریکہ کو پاکستان کے ساتھ اتحاد بنائے رکھنا ہے۔

انکا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ افغان طالبان پر کابل حکومت سے براہ راست بات چیت پر زور دیتا رہا ہے۔ تاہم، طالبان کا موقف ہے کہ وہ اُس وقت تک کابل حکومت سے بات نہیں کریں گے جب تک امریکہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بارے میں کوئی واضح اعلان نہیں کرتا۔