رابرٹ گیٹس کے دورہ چین کی اہمیت

رابرٹ گیٹس کے دورہ چین کی اہمیت

حالیہ برسوں میں چین نے خود کو علاقائی سپر پاور ثابت کر دیا ہے اور اب وہ عالمی سپر پاور بننے کی منزل پر پہنچنے والا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران چین نے ماہی گیروں کی ایک جاپانی کشتی کو پکڑا، ایک نئے لڑاکا جیٹ کی نقاب کشائی کی اور امریکہ کو انتباہ کیا کہ اس کے ساحلوں کے نزدیک بین الاقوامی پانیوں میں جنگی جہاز بھیجنے سے اس کے اہم مفادات کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس اس اختتام ہفتہ چین جا رہے ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب دنیا کی مسلمہ سپر پاور اورابھرتی ہوئی نئی طاقت کے درمیان تعلقات انتہائی اہم مرحلے میں ہیں۔

حالیہ برسوں میں چین نے خود کو علاقائی سپر پاور ثابت کر دیا ہے اور اب وہ عالمی سپر پاور بننے کی منزل پر پہنچنے والا ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران چین نے ماہی گیروں کی ایک جاپانی کشتی کو پکڑا، ایک نئے لڑاکا جیٹ کی نقاب کشائی کی اور امریکہ کو انتباہ کیا کہ اس کے ساحلوں کے نزدیک بین الاقوامی پانیوں میں جنگی جہاز بھیجنے سے اس کے اہم مفادات کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

اس کے علاوہ بحرالکاہل میں اعلیٰ امریکی کمانڈر نے بتایا کہ چین کے نئے بلسٹک میزائل کا جو بحری جہازوں کے خلاف استعمال کے لیے تیار کیا جا رہا ہے، تیاری کا ابتدائی مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔

امریکی عہدے داروں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ چین ایسے فوجی نظام تیار کر رہا ہے جن کا مقصد کسی مخالف قوت کو بعض مخصوص علاقوں میں پہنچنے سے روکنا ہےجیسے بحری جہاز شکن ہتھیار، آبدوزیں اور سائبر کے شعبے میں جنگ کی صلاحیتیں۔

امریکی عہدے داروں نے چین پر تنقید کی ہے کہ اس نے شمالی کوریا کی طرف سے جنوبی کوریا پر حالیہ حملوں پر تنقید نہیں کی اور شمالی کوریا کو اپنا طرزِ عمل تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے لیے زیادہ کوشش نہیں کی ہے۔

محکمہ دفاع کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری مائیکل سیچیفر نے واشنگٹن میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ’’ آج ایشیا میں جتنے بڑے پیمانے پر طاقت میں تبدیلی کا عمل جاری ہے حالیہ تاریخ میں اس کی مثال مشکل سے ہی ملے گی‘‘۔

سیچیفرکہتے ہیں کہ امریکہ چین کے عروج کا خیر مقدم کرتا ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ چین بین الاقوامی ضابطوں کا احترام کرے۔ پروگریسو پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے صدر ول مارشل کہتے ہیں کہ چین کا حالیہ طرزِ عمل تشویش کا باعث ہے۔’’یہ طرزِ عمل چین کے ان سرکاری دعوؤں کے مطابق نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اپنے ملک کا پُر امن عروج چاہتے ہیں۔ یہ طرزِعمل تو خاصا خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بات ان پر واضح کر دی جانی چاہیے۔ امریکہ پر لازم ہے کہ وہ انہیں یہ بتا دے کہ ہمیں دنیا کے اس حصے تک رسائی سے محروم نہیں کیا جا سکتا‘‘۔

رابرٹ گیٹس کے دورہ چین کی اہمیت

مارشل کہتے ہیں کہ امریکی عہدے داروں کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ا ب چین کے زیادہ جارحانہ انداز کو اور اس کے ساتھ ہی تعاون کے امکانات کو بہتر طور پر سمجھنے لگے ہیں۔ بلکہ وزیرِ خارجہ گیٹس کے 2012ء کے بجٹ میں بہت سے پروگراموں کے لیے رقم کم کی گئی ہے لیکن چین کی ہماری رسائی کو کم کرنے کی صلاحیت کےجواب میں نئے نظام تیار کرنے کے لیے زیادہ رقم رکھی گئی ہے۔

ہیریٹج فاؤنڈیشن کے تجزیہ کار ڈین چینگ متفق ہیں کہ گیٹس کو چینی لیڈروں کو بتا دینا چاہیے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں ہمیشہ اس پر عمل نہیں کرتے۔ چینگ کہتے ہیں کہ چینی لیڈروں کے درمیان آج کل اس سوال پر بحث جاری ہے کہ خارجہ پالیسی میں ان کا رویہ کتنا جارحانہ یا مصالحانہ ہونا چاہیے اور مسٹر گیٹس کو چاہیے کہ انہیں قائل کرنے کی کوشش کریں کہ امریکہ اور اپنے ایشیائی ہمسایوں کے ساتھ مخاصمانہ رویہ ان کے مفاد میں نہیں ہے۔

جمعرات کے روز ایک نیوز کانفرنس میں وزیر خارجہ گیٹس نے اپنے دورے کے بارے میں کہا کہ ’’میں یہ جاننے کے لیے بے چین ہوں کہ کون سے مشترکہ دلچپسی کے معاملات میں ہم ان کے ساتھ بات چیت کو وسعت دے سکتے ہیں۔ ایک واضح مثال شمالی کوریا کی ہے لیکن ایران اور دوسرے بہت سے شعبوں میں بھی مزید بات چیت ہو سکتی ہے‘‘۔

یہ دورہ امریکہ اور چین کے درمیان دفاع کے شعبے میں تعلقات آٹھ مہینے تک منجمند رہنے کے بعد ہو رہا ہے۔ گذشتہ سال چین نے تائیوان کو امریکی اسلحہ کی فروخت پر احتجاج کرنے کےلیے تعلقات منجمند کر دیے تھے۔ امریکی عہدے داروں نے بار بار کہا ہے کہ وہ زیادہ باقاعدہ تعلق چاہتے ہیں کیوں کہ مذاکرات منجمند ہونے سے کشیدگی اور غلط فہمی اور تصادم کا امکان بڑ ھ جاتا ہے۔

بیجنگ میں مذاکرات چین کے وزیرِ خارجہ کے واشنگٹن کے دورے کے ایک ہفتے بعد، اور چین کے صدر ہوجن تاؤ کے واشنگٹن کے دورے اور صدر براک اوباما کے ساتھ وسیع تر مذاکرات سے ایک ہفتہ قبل ہو رہے ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ میٹنگوں کے اس سلسلے سے دنیا کے دو بڑے ملکوں کے درمیان دو طرفہ اہم تعلقات کے لب و لہجے اور سمت کا تعین ہو گا۔