امریکی اخبارات سے: نیٹو اعلامیہ اور شام کا مستقبل

اخبار کے مطابق شام کی داخلی صورتِ حال خاصی پیچیدہ ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر مرکزی حکومت ختم ہوئی تو شام خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہوسکتا ہے جو بالآخر پڑوسی ممالک، بشمول عراق، لبنان اور ترکی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔

اخبار 'شکاگو ٹربیون' نے نیٹو سربراہی اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیہ کو اپنے اداریے کا موضوع بنایا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ نیٹو ممالک نے افغانستان کو خودمختار، محفوظ اور جمہوریہ بنانے کے جس عزم کا اظہار کیا ہے وہ محض کاغذ پر لکھے الفاظ نہیں۔

نیٹو نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ 2014ء تک غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کا فیصلہ حتمی ہے لیکن اتحادی ممالک اس کےبعد بھی افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

'شکاگو ٹربیون' لکھتا ہے کہ نیٹو رہنماؤں کو اپنے یہ الفاظ عمل سے ثابت کرنا ہوں گے۔اخبار کے مطابق افواج کے انخلا کے بعد نیٹو ممالک کو افغانستان کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دینی ہوگی۔

اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے اپنے ایک مضمون میں شام سے متعلق نیٹو کی پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا یا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ لیبیا میں نیٹو کی فتح کو امریکی اور اتحادی عہدیداران نے "مداخلت کا ایک ایسا مثالی ماڈل" قرار دیا تھا جسے ان کے بقول آئندہ کےلیے ایک مثال بنایا جاسکتا ہے۔

نیٹو کے بقول امنِ عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال، شہریوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات اور آمرانہ حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کے باعث اتحادی افواج کو لیبیا میں مداخلت کرنا پڑی تھی۔

'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ یہ تینوں عوامل شام میں بھی کار فرما ہیں جہاں صدر بشار الاسد کی افواج گزشتہ 15 ماہ سے جاری جمہوریت پسند تحریک کے دوران 10 ہزار شہریوں کو قتل کرچکی ہیں۔ اخبار نے سوال کیا ہے کہ حالات کی اس درجہ مماثلت کے باوجود آخرکیوں نیٹو ممالک شام میں لیبیا جیسی کاروائی نہیں کر رہے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ نیٹو کی یہ بے عملی اس لیے بھی تعجب خیز ہے کہ خود اتحاد کا ایک رکن ملک ترکی شام کے پڑوس میں واقع ہے اور وہاں کی صورتِ حال سے براہِ راست متاثر ہورہا ہے۔

امریکہ کے ایک اور معروف روزنامے 'واشنگٹن پوسٹ' نے شا م کو موضوع بناتے ہوئے لکھاہے کہ اس کی اسٹریٹجک اہمیت لیبیا سے کہیں زیادہ ہے۔ شامی صدر کو خطے میں ایران کا اہم ترین اتحادی تصور کیا جاتا ہے اور ان کی رخصتی کا لامحالہ فائدہ امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کو ہوگا جو ایران کو جوہری طاقت بننے سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔

لیکن اس سب کے باوجود نیٹو کے رکن ممالک کے سربراہان نے شکاگو میں ہونے والے اپنے اجلاس میں شام کے موضوع پر اظہارِ خیال سے گریزکیا۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے شام کی صورتِ حال پر گہری تشویش تو ظاہر کی، لیکن اگلی ہی سانس میں ان کا یہ فرمانا تھا کہ "اتحاد شام میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا"۔

واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ لیبیا کے مسئلے پر نیٹو کے ردِ عمل کا ایک اہم محرک امریکہ بھی تھا۔ لیکن چوں کہ شام کے معاملے پر امریکہ نے چپ سادھ رکھی ہے اسی لیے نیٹو ممالک بھی اس بحران پر کوئی سرگرمی نہیں دکھا رہے۔

اخبار کے مطابق شام کی داخلی صورتِ حال خاصی پیچیدہ ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر مرکزی حکومت ختم ہوئی تو شام خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہوسکتا ہے جو بالآخر پڑوسی ممالک، بشمول عراق، لبنان اور ترکی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔

'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ مغربی ممالک شام کی صورتِ حال پر اسی لیے چپ سادھے ہوئے ہیں کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ شام میں ہونے والی اس ممکنہ ابتری کا الزام ان پر عائد کیا جائے۔ لیکن اخبار کے مطابق صدر اوباما اور ان کے اتحادی زیادہ دیر تک مشرقِ وسطیٰ میں بھڑکتے ہوئے اس الائو سے نگاہیں نہیں چراسکیں گے اور انہیں جلد یا بدیر کوئی کردار ادا کرنا ہوگا۔

گذشتہ کئی روز چین کا نابینا سرگرم کارکن امریکی میڈیا کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اخبار 'یو ایس اے ٹوڈے' نے اپنے اداریے میں چین کے حکومت مخالف نابینا وکیل چین گوانگ چینگ کی امریکہ آمد کو امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کی بہتری کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ نابینا وکیل کو اس کی خواہش کے مطابق امریکہ آنےکی اجازت دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتیں محاذ آرائی کو ہوا دینے کے بجائے باہمی اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر آمادہ ہوئی ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ چین گوانگ چینگ کے معاملے پر امریکہ اپنے موقف پر قائم رہا جب کہ چینی حکومت اپنے موقف میں نرمی لائی اور ایک درست فیصلہ کیا جس کی بدولت اس تنازع کو خوش اسلوبی سے حل کرلیا گیا۔