امریکہ میں احتجاجی مظاہرے ایک سیاسی چیلنج

  • قمر عباس جعفری

امریکہ میں اب صدارتی اور کانگریس کے انتخابات میں پانچ ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ اور کرونا وائرس کی وبا کے امریکی معیشت پر منفی اثرات کے ساتھ منی ایپلس میں ایک افریقی امریکی کی پولیس کی تحویل میں ہلاکت کے خلاف اور نسلی مساوات کے حصول کے لئے ہونے والے مظاہروں نے، جو اب دنیا کے کئی دوسرے ملکوں تک جہاں نسلی عدم مساوات کے بارے میں لوگوں کو شکایات ہیں، پھیل گئے ہیں اور امریکی انتخابات میں سیاست دانوں کے لئے نئے چیلنج پیدا کر رہے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول یہ انتخابات انتہائی دور رس نتائج کے حامل ہوں گے۔ اور دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور امیدواروں کو سیاسی تدبر اور دانش مندی سے کام لیکر سیاست کی سمت کو جو زیادہ تلخیوں کی جانب جاتی نظر آ رہی ہے، تبدیل کرنا ہو گا۔

خیال رہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے قریب اور ملک بھر کے دوسرے شہروں اور قصبوں میں نسلی مساوات اور سماجی نظام انصاف میں اصلاحات کے حق میں روزانہ مظاہرے ہو رہے ہیں۔

سی این این کے ایک جائزے کے مطابق جو اس نے ایس ایس آر ایس کے ذریعے کرایا، صدر ٹرمپ کی مقبولیت میں سات پوائنٹ کی کمی ہوئی ہے اور وہ اپنے حریف، ڈیموکریٹک پارٹی کے متوقع امیدوار جو بائیڈن سے مزید پیچھے چلے گئے ہیں، جن کی حمایت سی این این کے مطابق اپنی اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے۔

ممتاز سیاسی تجزیہ کار اور صحافی جہانگیر خٹک کا کہنا ہے کہ دراصل یہ مظاہرے اور احتجاج حکومت کے خلاف نہیں، بلکہ یہاں کے سماجی انصاف کے نظام کے خلاف ہیں اور لوگ اس میں اصلاحات چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف امریکہ ہی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ کے بعد اب دنیا کے ان دوسرے ملکوں میں بھی یہ احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں جہاں لوگ سماجی انصاف کے نظام سے مطمئن نہیں ہیں اور یوں یہ ایک گلوبل جسٹس یا عالمی سطح پر نظام انصاف میں تبدیلی کی تحریک بنتی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی معاشرے میں پہلے ہی تقسیم ہے اور سیاست میں تلخی پیدا ہو چکی ہے اور آنے والے دنوں میں جب ملک میں صدارتی مباحثوں کا آغاز ہو گا تو تلخی اور زیادہ بڑھنے کا خدشہ ہے۔

اس لئے دونوں سیاسی جماعتوں کو وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اس تقسیم کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے اور ایک دوسرے پر ذاتی حملوں سے گریز کے ساتھ ساتھ اپنے آئندہ کے پروگراموں کے ایجنڈے میں سماجی نظام میں ان اصلاحات کے لئے تجاویز رکھنی چاہئیں جن کا مطالبہ کرنے کے لئے لوگ آج سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔

جہانگیر خٹک کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا اور ان تلخیوں کو کم کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو خود سیاسی جماعتوں میں بھی تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو جائے گا جس کے آثار ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔

انہوں کہا کہ صرف ایک یا چند شہروں میں پولیس کے محکمے توڑ دینے اور ان کی جگہ پبلک سیکیورٹی کا نیا نظام لانے سے بات نہیں بنے گی بلکہ اس سب کے لئے قومی سطح پر اتفاق رائے سے ایک روڈ میپ دیے جانے کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کاٹو انسٹی ٹیوٹ کی سحر خان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں ایسا نظر آتا ہے کہ سماجی انصاف کا مسئلہ انتخاب میں معیشت کے مسائل سے زیادہ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حالات نہ صرف اندرون ملک سیاست پر منفی اثرات ڈال رہے ہیں بلکہ بیرون ملک بھی امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور دنیا میں اس کے قائدانہ کردار پر بھی اس کا اثر پڑ رہا ہے۔

سحر خان کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کو مدبرانہ انداز اختیار کرنا چاہئیے۔ اور افریقی امریکیوں سمیت جو بھی لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے خلاف امتیاز برتا جا رہا ہے، ان کے اس احساس کو دور کرنے کے لئے نظام میں تبدیلیوں کی تجاویز پیش کر کے ان پر اتفاق رائے حاصل کرناچاہئیے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی اختلاف رائے کسی بھی جمہوری معاشرے کا حسن ہوتا ہے لیکن اس سیاسی اختلاف کو معاشرے کی تقسیم کا ذریعہ نہیں بننا چاہئیے۔