واٹس ایپ پرائیویسی پالیسی پر پاکستان میں تشویش، ڈیٹا پروٹیکشن قانون مسئلے کا حل ہے؟

مشہور میسجنگ ایپلی کیشن 'واٹس ایپ' کی جانب سے پرائیویسی پالیسی تبدیل کیے جانے پر پاکستان میں صارفین تشویش میں مبتلا ہیں۔

اس تشویش کا اظہار وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی کیا اور کہا کہ ان کی وزارت پاکستانی شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے نئے قوانین لانے پر غور کر رہی ہے۔

تاہم وزیر اعظم کے ڈیجیٹل میڈیا کے لیے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد نے کہا ہے کہ ڈیٹا پروٹیکشن کے لیے حکومت کوئی ایسا قانون نہیں لائے گی جس میں عالمی کمپنیوں کی ڈیٹا رسائی پر قدغن لگائی جائے۔

ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے بھی 'واٹس ایپ' کی جانب سے اس تبدیلی کو ڈیٹا پروٹیکشن کے اصولوں میں تبدیلی نہ لانے کے وعدے کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔

واٹس ایپ کی جانب سے پرائیویسی پالیسی میں تبدیلی پر پاکستان میں صارفین اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ کیا اب یہ ایپ پیغامات اور کالز کے لیے محفوظ ہے یا نہیں؟

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ حکومت شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کے لیے مؤثر قانون لانے پر غور کر رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ واٹس ایپ کو یکطرفہ اقدام کے بجائے ایسی تبدیلیوں سے قبل مشاورت کرنی چاہیے اور اس کے بعد ہی انہیں نافذ کرنا چاہیے۔

سوشل ایپ واٹس ایپ کی نئی پالیسی کے مطابق کمپنی واٹس ایپ صارفین کا ڈیٹا نہ صرف استعمال کرے گا بلکہ اسے فیس بک کے ساتھ شیئر بھی کرے گا۔

صارفین کو نئی پالیسی قبول کرنے کے لیے آٹھ فروری تک کا وقت دیا گیا ہے اور قبول نہ کرنے کی صورت میں صارفین اس ایپ کے استعمال سے محروم ہو جائیں گے۔

'معلومات تک رسائی پر حکومت کو تشویش ہے'

وزیرِ اعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد کہتے ہیں کہ ڈیٹا پروٹیکشن کے حوالے سے حکومت کو پہلے سے تشویش ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا ہے کہ حساس معلومات باہر کی کمپنیوں کے پاس نہ جائے، یہ تشویش صرف پاکستان کی نہیں سب ممالک کی ہے اور اس کا حل ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ بیٹھ کر ہی نکالا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو ڈیٹا پروٹیکشن کے حوالے سے دیکھ بھال کے ساتھ قانون لانا ہوگا اور ایسا قانون قابلِ عمل نہیں ہو گا جس میں عالمی کمپنیوں کی ڈیٹا تک رسائی پر قدغن ہو۔

وزیرِ اعظم کے فوکل پرسن کہتے ہیں کہ سرکاری اور حساس دستاویزات کی ترسیل کے لیے حکومتی سطح پر محفوظ ذرائع اور ایپس موجود ہیں جنہیں استعمال کیا جا رہا ہے۔

پرائیویسی پالیسی میں تبدیلی پر تشویش کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چند روز سے پاکستانی ٹوئٹر پر اس حوالے سے ہیش ٹیگ ٹرینڈز کرنے میں سرفہرِست ہیں۔

'واٹس ایپ نے کہا تھا پالیسی تبدیل نہیں کرے گا'

ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ واٹس ایپ کی اس تبدیلی کا مقصد کاروباری مقاصد کے تحت سوشل میڈیا پر تشہیر کے لیے استعمال کیا جانا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی نگہت داد کہتی ہیں کہ دنیا بھر کے صارفین واٹس ایپ کی پالیسی میں تبدیلی پر تشویش میں مبتلا ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ 2014 میں فیس بک کی جانب سے خریدے جانے پر صارفین کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ وہ اپنی پرائیویسی پالیسی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے اور ڈیٹا پروٹیکشن کے اصول کبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔

نگہت داد کہتی ہیں کہ اس یقین دہانی کے باوجود 2016 میں واٹس ایپ ڈیٹا فراہمی کی پالیسی لایا تاہم اس میں صارف کو حق حاصل تھا کہ وہ اپنا ڈیٹا دینا چاہتا ہے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ واٹس ایپ 2016 کی پالیسی کو کچھ ممالک میں چیلنج بھی کیا گیا تھا۔

نگہت داد کہتی ہیں کہ اب جو پالیسی لائی گئی ہے اس کا مقصد ایڈورٹائزرز کو یہ ڈیٹا مہیا کرنا ہے مگر اس مرتبہ صارف کو قبول نہ کرنے کا اختیار نہیں ہے بلکہ یہ فیصلہ اب واٹس ایپ انتظامیہ کرے گی۔

وہ کہتی ہیں کہ فیس بک کے ایڈورٹائزنگ اور بزنس ماڈل پر ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والوں اور ریگولیٹری اداروں کو اعتراضات رہے ہیں۔

'پالیسی میں تبدیلی قابل تشویش نہیں'

ڈاکٹر ارسلان خالد کہتے ہیں کہ واٹس ایپ کی نئی پالیسی زیادہ قابلِ تشویش نہیں ہے کیوں کہ پیغامات اور کالز اب بھی "اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ ہیں اور اس فیچر کو تبدیل نہیں کیا جا رہا۔

یاد رہے کہ 'اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن' کا مطلب ہے کہ واٹس ایپ سمیت کوئی بھی تیسرا فرد یا ادارہ واٹس ایپ پر دو افراد کے درمیان ہونے والی گفتگو یا کالز کو دیکھ یا سن نہیں سکتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر ارسلان نے کہا کہ البتہ نئی پالیسی کے مطابق اگر صارف واٹس ایپ بزنس ایپ کے ذریعے بات چیت کرتے ہیں تو وہ ڈیٹا کمپنی فیس بک کے ساتھ شیئر کرے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ اس عمل کا مقصد فیس بک کو مارکیٹنگ میں مدد دینا ہے کیوں کہ جس قدر بہتر ڈیٹا ہو گا تو فیس بک اسی قدر بہتر ڈیجیٹل مارکیٹنگ کر سکے گی۔

ڈاکٹر ارسلان کہتے ہیں کہ یہ پالیسی گزشتہ سال اکتوبر سے رائج ہے مگر واٹس ایپ کی جانب سے نئے قواعد کو قبول کرنے کے حوالے سے جاری پیغام سے لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آٹھ فروری تک پالیسی تسلیم نہ کرنے والے صارف ایپ استعمال نہیں کر پائیں گے۔

نگہت داد کہتی ہیں کہ واٹس ایپ استعمال کرنے والے بہت سے لوگ فیس بک استعمال نہیں کرتے اور نئی پالیسی ان صارفین کے ساتھ زیادتی ہو گی کہ ان کا ڈیٹا آپ فیس بک اور پھر تھرڈ پارٹی کو فراہم کیا جائے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ واٹس ایپ آپ کا نام، آئی پی ایڈریس، پروفائل فوٹو، گروپس کے نام فیس بک سے شیئر کرتا ہے تو یہ پالیسی میں واضح فرق ہے اور اس پر عوام کی تشویش بیجا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ شبہات اس وجہ سے زیادہ ہیں کیوں کہ 2014 میں بھی واٹس ایپ نے کہا تھا کہ وہ ڈیٹا پروٹیکشن پالیسی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے پھر 2016 میں اس کی نفی کی گئی اور اب مکمل طور پر اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

نگہت داد کے بقول پاکستانیوں میں تشویش اس وجہ سے بھی جائز ہے کیوں کہ ہمارے جیسے ممالک پرائیویسی پالیسی اور ڈیٹا پروٹیکشن کے قوانین میں بہت پیچھے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ واٹس ایپ نے یورپی یونین کو اس نئی پالیسی سے باہر رکھا ہے جس کی وجہ ان کے اپنے مضبوط پرائیویسی اور ڈیٹا پروٹیکشن کے قوانین ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب تک ترقی پذیر ممالک کے عوام کو اپنے ڈیجیٹل حقوق کی آگاہی آئے گی تب تک ہم بہت حد تک سمجھوتہ کر چکے ہوں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈیٹا پروٹیکشن کے مؤثر قانون کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔