پاکستان میں زیرِ زمین پانی کی کمی پر عالمی بینک کو بھی تشویش، فوری اقدامات پر زور

فائل فوٹو

عالمی بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 2020 میں زیرِ زمین پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا۔

رپورٹ کے مطابق اگرچہ پاکستان میں زیرِ زمین پانی کی مقدار پاکستان کے تین بڑے ڈیموں میں پانی کے مجموعی ذخیرے سے 80 گنا زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو 2020 میں زیرِ زمین پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا۔

ہفتے کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور زیرِ زمین پانی کے کے مسائل سے نمٹنے کے اقدامات کے فقدان کی وجہ سے پاکستان میں تازہ اور میٹھے پانی کے معیار اور سیکیورٹی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے ہے کہ اگر ان معاملات کو حل کرنے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو اس کی وجہ سے نہ صرف ملک میں پانی کے تحفظ میں کمی واقع ہو سکتی ہے بلکہ آلودہ پانی کے استعمال سے پیدا ہونے امراض کے علاج کے لیے اخراجات میں اضافے سے ملک میں غربت بھی بڑھ سکتی ہے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق آلودگی، حد سے زیادہ زیرِ زمین پانی کا استعمال، نہری پانی کا ناقص انتظام اور آب پاشی کے نامناسب طریقوں کی وجہ سے پاکستان میں زیرِ زمین تازہ پانی کی محفوظ ترسیل میں کمی آ رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران آبی ماہرین کی طرف سے ان مسائل سے نہ نمٹنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران سے متنبہ کرنے کے باوجود ان کو حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔

Your browser doesn’t support HTML5

پانی بچانے کا آلہ بنانے والے پاکستانی

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک طرف پنجاب میں زیرِ زمین پانی کی کمی ہو رہی ہے جب کہ سندھ میں نمکیات والے پانی کی وجہ سے پانی اور زمین پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں استعمال ہونے والے زیرِ زمین پانی کے استعمال اور اس کا پانی کے وسائل پر مرتب ہونے والے اثرات کی پیمائش کا جامع نظام بھی موجود نہیں ہے۔

پاکستان کی پانی و بجلی کی وزارت کے سابق سیکرٹری اور آبی وسائل کے امور کے ماہر، مرزا حامد حسن کہتے ہیں کہ زیرِ زمین پانی، پانی کے وسائل کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جس کے ذمہ دارانہ استعمال کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد مرزا نے کہا کہ پاکستان کے پاس زیرِ زمین پانی ایک بہت بڑا پانی کا ذریعہ ہے۔ اس کا بے تحاشہ استعمال ہو رہا ہے ان کے بقول ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں 50 فی صد پانی کی ضروریات زیرِ زمین پانی سے ہی پوری کی جا رہی ہیں۔

ان کے بقول پاکستان کے مختلف علاقوں بشمول پنجاب میں کاشت کاری کے لیے زیرِ زمین پانی کا استعمال بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ ان کے بقول زیرِ زمین پانی کے بے دریغ استعمال کو روکنے کے ساتھ ساتھ زیرِ زمین پانی کو آلودگی سے بچانا بھی ضروری ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں پانی کا بحران شدید ہو سکتا ہے

دوسری جانب پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کو پانی کی سیکیورٹی کا چیلنج درپیش ہے جس سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر ایک لائحہ عمل وضع کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا ہے کہ پاکستان اس چیلنج سے پوری طرح آگاہ ہے۔

ان کے بقول اس سے نمٹنے کے لیے حکومت ایک لائحہ عمل مرتب کر رہی ہے اور وہ امریکہ کی جو بائیڈن انتظامیہ سے بھی دیگر امور کے علاوہ پانی کے وسائل کو بڑھانے کے لیے تعاون کے خواہش مند ہیں۔

گزشتہ ہفتے واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھینک ٹینک، ولسن سینٹر میں آن لائن گفتگو کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ اگر پاکستان کو پانی کی سیکیورٹی میسر ہو جائے تو پاکستان نہ صرف غذا کے معاملے میں خود کفیل ہو سکتا ہے، بلکہ مشرقِ وسطیٰ اور خطے کے دیگر ممالک کی ضروریات بھی پوری کر سکتا ہے۔

پانی کے وسائل کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بلاشبہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پاکستان کی پانی کی ضرروریات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے ڈیم بنانے کے ساتھ ساتھ مون سون میں بارش اور سیلاپ کے پانی کو چھوٹے پیمانے پر ذخیرہ کرنے کے طریقوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔