دنیا بھر میں لوگ آمر حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں، ہیومن رائٹس واچ

انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ آمروں کی زیادتیوں کے خلاف اکھٹے ہو رہے ہیں۔ ادارے کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2018 میں مغربی جمہوریتوں کے ساتھ ساتھ روایتی انداز میں حکومت چلانے والے ملکوں میں بھی آمرانہ رجحانات کی مخالفت میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور کئی ملکوں میں گروپس لوگوں کے حقوق کی حمایت کے منظم ہو رہے ہیں۔

جمعرات کے روز سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں ہزاروں مظاہرین نے آزادی، امن اور انصاف کے نعرے لگاتے ہوئے اور صدر عمر البشیر کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے صدارتی محل کی جانب مارچ کیا۔ بشیر 1989 کے انقلاب کے بعد اقتدار میں آئے تھے اور انہوں نے اس کے بعد سے ایک آہنی شکنجے کے ساتھ حکومت کی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے کینتھ روتھ کا کہنا ہے کہ اگر آپ ایک آمر ہیں تو آپ کے لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے آپ اقتدار میں رہتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے آپ اپنے بینک اکاؤنٹ بھرتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے آپ اپنے ساتھیوں کو ادائیگی کرتے ہیں۔ اور انہی وجوہات کی بنا پر حکومتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنا چاہتی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ ملائیشیا اور مالدیپ میں ووٹروں نے اپنے بدعنوان وزرائے اعظم کو نکال دیا۔ آرمینیا کے وزیراعظم بدعنوانی کے خلاف مظاہروں کی وجہ سے اپنے عہدے سے الگ ہو گئے۔ اور ایتھوپیا میں عوامی دباؤ بڑے عرصے سے قائم ایک آمر حکومت کی جگہ ایک ایسے وزیر اعظم کو لے آیا جس نے موثر اصلاحات کا ایک ایجنڈا دیا۔

مغربی جمہوریتوں میں آہنی شکنجے کے ساتھ حکومت کرنا زیادہ مشکل ہے، لیکن کچھ عالمی تبدیلیوں نے، جن میں بڑے پیمانے کی نقل مکانی شامل ہے، عوامیت پسندی کو متاثر اور استبدادی لیڈروں کو بڑھاوا دیا ہے۔ مثال کے طور پر ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان اور پولینڈ کے وزیراعظم آئندرے ڈوڈا۔

ان دونوں ملکوں میں لوگوں نے اس چیز کے خلاف ردعمل دیا ہے جسے وہ آزادی پر ایک حملہ سمجھتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں ووٹروں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خوف پیدا کرنے والی پالیسیوں کو مسترد کر دیا۔

کینتھ روتھ کا کہنا ہے کہ اگر آپ دنیا پر نظر ڈالیں تو امریکہ تک میں ایک مقبول درجے پر ایک مخالفانہ رد عمل سامنے آیا ہے۔ وسط مدتی انتخابات صدر ٹرمپ کی تفریق پر مبنی پالیسیوں کے خلاف ایک بڑا رد عمل تھے۔ اس لیے بہت کچھ سامنے آیا ہے۔ لیکن یہ حکومتی لیڈر ہی ہیں جو کہتے ہیں کہ جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی اہم ہیں۔

جرمنی ڈنمارک اور فن لینڈ نے سعودی مصنف جمال خشوگی کی ہلاکت کے بعد سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کر دی، لیکن سبھی کچھ اچھا نہیں ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت حال بدتر شکل اختیار کر گئی ہے جہاں دس لاکھ یغور مسلمان اصلاحی تعلیم نامی پروگرام کے تحت گرفتار ہیں اور انہیں مخصوص کیمپوں میں اپنی روایات اور عقائد چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اب اگر کوئی دوسرا ملک ایسا کرے گا تو یہ ایک اشتعال انگیزی ہو گی لیکن چونکہ چین اقتصادی طور پر مضبوط ہے اس لیے وہ یہ سب کچھ کر رہا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ شام، یمن، میانمر اور دوسری جگہوں پر تنازعوں کی وجہ سے آمر حکمران جکڑے ہوئے عام شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مظالم کا ارتکاب کر سکے ہیں۔