رسائی کے لنکس

مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی: 'پاکستان صرف امن کا ساتھ دے گا'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں تنازعات میں ملوث ہو کر پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا۔

اسلام آباد میں عمان کے وزیر برائے مذہبی اُمور عبداللہ بن محمد سے ملاقات کے دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ اب پاکستان کسی بھی علاقائی تنازع میں فریق نہیں بنے گا۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان ہر اس کوشش کا ساتھ دے گا۔ جو قیام امن کے لیے ہو گی۔

وزیر اعظم عمران خان نے مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو امن کے پیغام کے ساتھ ایران، سعودی عرب اور امریکہ کا دورہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹوئٹ میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی کہا ہے کہ وہ متعلقہ ممالک کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں سے رابطہ قائم کر کے انھیں یہ واضح پیغام دیں کہ پاکستان امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر تیار ہے. لیکن دوبارہ کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔

پاکستان کے وزیر اعطم عمران نے اس بات کا اعلان بدھ کو ایسے وقت کیا ہے جب امریکہ ایران کی کشیدگی کی وجہ سے خطے کی صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔

اس سے قبل پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایران کے عراق پر امریکی تنصیبات پر ہونے والی میزائل حملوں پر ردعمل دیا تھا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مشرق وسطٰی میں کشیدگی میں اضافہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ خطّہ جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت خطّے کی صورتِ حال غیر یقینی ہے۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ معاملات مزید نہ بگڑیں اور یہ خطہ کسی جنگ میں نہ الجھ جائے۔

عراق میں امریکہ کے فوجی اڈوں کو ایران کی طرف سے نشانہ بنائے جانے پر وزیر خارجہ نے امریکہ کا نام لیے بغیر کہا کہ جن پر حملہ ہوا، وہ اس وقت خود صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔

ان کے بقول جو اطلاعات سامنے آئی ہیں اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ لیکن ابھی مزید تفصیلات کا انتظار ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ طاقت کے استعمال سے معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے ایرانی ہم منصب کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ ایران جنگ کا ارادہ نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا تھا کہ جواد ظریف کا بیان سنجیدہ اور بہتر حکمت عملی کا مظہر ہے۔ لہذٰا امریکہ کو بھی اس معاملے پر احتیاط برتنی چاہیے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ امریکہ کے اندر بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو جنگ کے خلاف ہے۔

امریکہ کے وزیر دفاع مارک ایسپر نے بھی منگل کو رات گئے افغانستان کے صدر اشرف غنی اور پاکستانی فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔

ایران کے امریکی تنصیبات پر ہونے والے حملوں سے قبل اس گفتگو میں مارک ایسپر نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے۔ لیکن اگر ضرورت پڑی تو بھرپور جواب دیں گے۔

ایران کے جوابی حملوں کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ نے عراق کے سفر پر جانے والے اپنے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ احتیاطی تدابیر برتنے کی ہدایت کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ پاکستانی جو عراق میں موجود ہیں وہ فوری طور پر بغداد میں موجود سفارت خانے سے رابطہ کریں۔

XS
SM
MD
LG