رسائی کے لنکس

کشمیری رہنما سید علی گیلانی حریت کانفرنس سے مستعفی


سید علی شاہ گیلانی (فائل فوٹو)
سید علی شاہ گیلانی (فائل فوٹو)

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری تحریکِ مزاحمت کے بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی نے غیر متوقع طور پر کُل جماعتی حریت کانفرنس سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔

پیر کو 91 سالہ سید علی شاہ گیلانی، جو گزشتہ ایک دہائی سے سری نگر میں حیدر پورہ کے علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ پر نظر بند ہیں اور علیل ہیں، نے حریت کانفرنس (گیلانی) سے خود کو علیحدہ کرنے کا اعلان کیا۔

اپنے ایک آڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ وہ اتحاد کو درپیش موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر اسے خیرباد کہنا مناسب سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حریت کانفرنس کو ایک مفصل خط بھی ارسال کیا گیا ہے۔

اپنے خط میں سید علی گیلانی نے کہا ہے کہ حریت کانفرنس کی موجودہ صورتِ حال کو مدِ ںظر رکھتے ہوئے میں اس فورم سے مکمل علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں۔ میں اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے ساتھ اس فورم کے ساتھیوں کی کارکردگی کے لیے جواب دہی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا ہے کہ اتحاد میں شامل اُن کے ساتھی اپنے مستقبل کے لیے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔

بھارتی کشمیر میں لاک ڈاؤن، ڈرونز سے شہریوں کی نگرانی
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:34 0:00

خیال رہے کہ حریت کانفرنس استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد ہے جو مارچ 1993 میں قائم ہوا اور قیام کے 10 سال بعد لیڈر شپ میں اختلافات کی بنا پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔

کشمیر کے مسئلے پر سخت مؤقف رکھنے والے دھڑے کی قیادت سید علی گیلانی نے سنبھالی تھی جب کہ اعتدال پسند جماعتیں میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میں جمع ہو گئی تھیں۔

سید علی گیلانی کو چند سال قبل حریت کانفرنس کا تاحیات چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن سید علی گیلانی کے بارے میں اتحاد میں شامل بعض افراد کی یہ رائے تھی کہ انہیں ان کی پیرانہ سالی اور بگڑتی صحت کے پیشِ نظر ایسی سرگرمیوں سے الگ رکھا جائے جنہیں نبھانے میں انہیں کو مشکل پیش آ سکتی ہے۔

'نہ دل و دماغ کی قوت ختم ہوئی، نہ ہی جذبۂ حریت میں کوئی ضعف آیا ہے'

عام لوگوں کے ایک وسیع حلقے میں یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی طرف سے جمّوں و کشمیر کی آئینی خود مختاری کو ختم کرنے کے بعد کی صورتِ حال میں سید علی گیلانی ایک فعال کردار ادا کرنے اور لوگوں کی رہنمائی کرنے سے قاصر رہے ہیں۔

سید علی گیلانی نے اس نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے اپنے خط میں لکھا ہے کہ پیرانہ سالی، جسمانی کمزوری اور مختلف عوارض سے نہ میرے دل و دماغ کی قوت ختم ہوئی ہے اور نہ ہی میرے جذبۂ حریت میں کوئی ضعف آیا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ وہ آخری وقت تک 'بھارتی استعمار' کے خلاف نبرد آزما رہیں گے اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسبِ استطاعت ادا کرتے رہیں گے۔

کشمیر کا مسئلہ ہے کیا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:22 0:00

سید علی گیلانی نے اپنے خط میں حریت کانفرنس (گیلانی) کے کچھ رہنماؤں پر تنقید بھی کی اور اتحاد کی غیر فعالیت کے لیے اپنے ساتھیوں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ تاریخی قدغنوں اور زیرِ حراست ہونے کے باوجود میں نے آپ حضرات کو بہت تلاش کیا۔ پیغامات کے ذریعے رابطہ کرنے کی بھی کوشش کی مگر کوئی کوشش کارگر ثابت نہیں ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب جب ان کے ساتھیوں پر احتساب کی تلوار لٹکنے لگی تو انہوں نے جواب دہی کی ضرورت محسوس کی۔ مالی بے ضابطگیوں سے پردہ سرکنے لگا اور ان پر اپنے منصب کے چِھن جانے کا خوف طاری ہوا تو انہوں نے نام نہاد شوریٰ اجلاس منعقد کیا۔

سید علی گیلانی نے اپنے کچھ ساتھیوں پر یہ الزام بھی لگایا کہ انہوں نے حریت کانفرنس کی کارکردگی اور بے ضابطگیوں کو اکثر تحریک کے وسیع تر مفاد کا بہانہ بناتے ہوئے نظر انداز کیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی عذاب و عتاب، مسلسل گرفتاریوں، معاشی بدحالی اور ذاتی کمزوریوں کی وجہ سے حریت کانفرنس کے اتحاد میں جواب دہی کا سخت نظام قائم نہیں ہو سکا۔

پیر کی سہہ پہر سرینگر میں یہ افواہ گردش کرنے لگی تھی کہ سید علی گیلانی کو حریت کانفرنس سے علیحدگی پر مجبور کیا گیا ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ سید علی گیلانی کے بعض قریبی ساتھیوں نے انہیں خبردار کیا تھا کہ اگر وہ اتحاد سے علیحدہ نہیں ہوتے تو جمّوں و کشمیر میں حالات مزید بگڑ سکتے ہیں اور لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

البتہ ان کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ سید علی گیلانی کو حریت کانفرنس میں شامل بعض اہم افراد اور ذمہ داروں کے رویے سے ٹھیس پہنچی ہے جو اُن کے مستعفی ہونے کا سبب بنی۔

’کشمیر میں نو عمر لڑکوں کو بھی گرفتار کیا گیا‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:58 0:00

خیال رہے کہ سید علی گیلانی کا تعلق جماعتِ اسلامی سے رہا ہے لیکن چند برس پہلے انہوں نے جماعتِ اسلامی سے علیحدگی اختیار کر کے 'تحریکِ حریت جموں و کشمیر' کے نام سے اپنی تنظیم قائم کی تھی۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سید علی گیلانی کو پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی حلقے کا ایسا ترجمان اور قائد سمجھا جاتا ہے جنہوں نے اپنے مؤقف میں کبھی لچک پیدا نہیں کی۔

سال 2003 میں اُس وقت کے صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف نے کشمیری قیادت کو مبینہ طور پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کا گرین سگنل دیا تو سید علی گیلانی نے اس کی بھر پور مخالفت کی تھی۔

انہوں نے کشمیر سے متعلق 'مشرف فارمولا' کشمیری عوام اور پاکستان کے مفادات کے خلاف قرار دیا تھا۔

اس کے فوراً بعد ہی حریت کانفرنس سخت گیر اور اعتدال پسند دھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔

اسلام آباد نے میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس کی تائید و حمایت کا اعلان کیا تو مقامی سیاسی حلقوں میں اس رائے کو تقویت ملی کہ اتحاد کو دو لخت کرنے میں پاکستانی حکومت کا ہاتھ ہے۔

صدر جنرل پروز مشرف نے ایک انٹرویو میں اس الزام کی سختی سے تردید کی تھی کہ حریت کانفرنس کی تقسیم میں پاکستانی حکومت کا ہاتھ ہے۔

'سید علی گیلانی نے کشمیر میں پاکستان کے حامی سیاسی کیمپ کو فعال رکھا'

سید علی گیلانی کے استعفے پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سید علی گیلانی نے گزشتہ کئی دہائیوں پر محیط اپنے سیاسی سفر میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پاکستان کے حامی سیاسی کیمپ کو فعال رکھنے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بھارتی کشمیر میں کیا انتظامات ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:12 0:00

یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبۂ قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کہتے ہیں کہ گیلانی صاحب کئی ماہ بلکہ کئی برس سے طبیعت کی ناسازی کے سبب حریت کانفرنس کے تمام اجلاسوں میں شرکت نہیں کر سکے ہیں۔ لیکن اس کی طرف سے جتنے بھی فیصلے کیے جاتے رہے وہ اُن سے ہی منسوب ہوئے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین نے کہا کہ ممکن ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہو کہ حریت کانفرنس کے تمام فیصلے اور اقدامات، جن میں اُن کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، اُن کے کھاتے میں نہ ڈالے جائیں۔

پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین نے مزید کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ گیلانی صاحب کا اتحاد سے علیحدہ ہونا ان کے سیاست سے کنارہ کشی کی نوید سناتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سید علی گیلانی کے پاس کسی بھی معاملے پر 'ویٹو' کرنے کی صلاحیت ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے ماضی میں "مشرف فارمولے" کو رد کر کے کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں سید علی گیلانی آئندہ بھی ایسا کرتے رہیں گے اور اگر ان کی صحت نے اجازت دی تو وہ کشمیر کے سیاسی افق پر برابر نظر آئیں گے۔

سید علی گیلانی کے حریت کانفرنس سے علیحدہ ہونے کے اعلان کو بھارتی ذرائع ابلاغ بھر پور انداز سے نشر کیا ہے۔

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے بعض رہنماؤں اور ہم خیال سیاسی جماعتوں اور ٹیلی ویژن چینلوں نے اسے پاکستان کے خلاف علمِ بغاوت بلند قرار دیا ہے لیکن اس مفروضے کی کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG