رسائی کے لنکس

علی وزیر کی گرفتاری پرانسانی حقوق کمیشن کا اظہار تشویش


رکن قومی اسمبلی علی وزیر، فائل فوٹو
رکن قومی اسمبلی علی وزیر، فائل فوٹو

پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی سندھ پولیس کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو ریاست مخالف ہونے کے الزامات پر مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ بطور شہری، اظہار رائے علی وزیر کا آئینی حق ہے۔ انہیں جس طرح سے گرفتار کیا گیا، وہ ایچ آر سی پی کے لیے باعث تشویش ہے۔

ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ علی وزیر کو غیر مشروط پر رہا کیا جائے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایچ آر سی پی کے جنرل سیکرٹری حارث خلیق کا کہنا ہے کہ ریاستی ستونوں پر جب بھی حملہ کیا جائے تو دنیا کی کوئی بھی ریاست اس پر ردعمل ضرور دیتی ہے۔ لیکن علی وزیر کے معاملے میں ایک مخصوص صورت حال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے خیالات سابقہ قبائلی علاقوں میں طویل جنگ کے بعد متاثرین کا غم و غصہ اور ان کی آواز ہے۔ انہوں نے کہا کہ علی وزیر محض سیاسی کارکن ہی نہیں، بلکہ ایک منتخب پارلیمنٹیرین بھی ہیں، اور اس معاملے میں اسپیکر کا ایک کردار ہوتا ہے۔ اس میں پارلیمان کا کردار ہونا چائیے۔ کیونکہ یہ لوگوں کے منتخب نمائندے ہیں۔

کمیشن کے جنرل سیکرٹری کا کہنا ہے کہ علی وزیر کے خیالات سے اتفاق یا اختلاف ضرور کیا جا سکتا ہے۔ مگرحکومت کو بھی یہ دیکھنا چاہیئے کہ سیاسی مخالفین کو کسی نہ کسی طرح مختلف مقدمات میں الجھا کر ان کی آوزاوں کو دبانا حکومت کے لئے اچھا ہے اور نہ ہی یہ ریاست کی بقاء اور معاشرے کے لئے سود مند۔

"انصاف کی عدم فراہمی پر غصے کے اظہار پر گرفتاری قابل مذمت ہے"

دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں علی وزیر کے گھر کے 18 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں ان کے والد، بھائی اور بھتیجے بھی شامل ہیں۔ جب کہ ریاستی اداروں نے ان 18 افراد میں سے کسی ایک کے بھی قاتل کو گرفتار نہیں کیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے کبھی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کا کہنا تھا کہ علی وزیر، جنگ کے مخالف ہیں اور اپنے گھر کے افراد اور ان جیسے بہت سے افراد کے قتل پر غم و غصے اور جنگ سے انکار کے اظہا پر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین، فائل فوٹو
پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین، فائل فوٹو

ان کا کہنا تھا کہ اس سے ریاستی ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جا رہا۔ ایک جانب ریاستی ادارے عوام کو تو انصاف نہیں دے سکتے ہیں، لیکن وہ لوگ جو انصاف کے لئے دربدر پھر رہے ہیں ان کی جانب سے محض غصے کے اظہار کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ منظور پشتین کا کہنا تھا کہ جب تک ریاست انصاف فراہم نہیں کرے گی، اس وقت تک عام کے لوگوں کے لہجوں کو کنٹرول نہیں کر پائی گی۔

علی وزیر کی محض تقریر کی بناء پر گرفتاری کو پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ ناانصافی کی طویل داستانوں کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس گرفتاری پر صرف انسانی حقوق کمیشن ہی کو نہیں بلکہ ہر کسی کو اس عمل کی مزاحمت کرنی چائیے۔

سندھ پولیس نے گرفتار کیا، بلاول بھٹو نے مذمت کی، مگر سندھ حکومت خاموش ہے

دوسری جانب سندھ پولیس کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات پر رکن قومی اسمبلی کی گرفتاری پر سندھ حکومت کی جانب سے اب تک کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے، تاہم سندھ میں برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس گرفتاری کی مذمت کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ منتخب اراکین اسمبلی کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنا فاشسٹ حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے تاکہ عوامی آوزاوں کو دبایا جا سکے۔

بلاول بھٹو زرداری، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی،
بلاول بھٹو زرداری، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی،


لیکن اس مقصد کے لئے سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی ہی کی سندھ پولیس کو استعمال کیا گیا ہے۔ اس سوال پر کہ سندھ پولیس کی کارروائی پر سندھ حکومت کی مکمل خاموشی اور پھر وہاں برسر اقتدار جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو کی تنقید کیا معنی رکھتی ہے، انسانی حقوق کمیشن کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق کا کہنا ہے کہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور لوگ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بہت سے سرکاری محکموں میں وفاقی اداروں کا عمل دخل بے حد زیادہ ہے جو صوبوں کے معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے اور ایسا نہیں ہونا چائیے۔

ادھر دوسری جانب منظور پشتین کے مطابق پیپلز پارٹی کی جانب سے گرفتاری کی مذمت میں محض بیان جاری کرنا کافی نہیں ہے۔ ا

پی ٹی ایم رہنما کے خیال میں اس مسئلے پر پارلیمان کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے۔ وہاں سے آواز آنے سے پارلیمان کی قانونی ساکھ کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔

علی وزیر پر الزامات کیا ہیں؟

سہراب گوٹھ تھانے میں درج مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ 6 دسمبر کو الآصف اسکوائر کے قریب ہونے والے جلسے سے پی ٹی ایم رہنما خطاب کیا تھا۔ پولیس کے مطابق اس جلسے کے لئے حکومت سے اجازت بھی حاصل نہیں کی گئی۔ پولیس کے مطابق جلسے میں 1800 سے 2000 کے قریب افراد تھے۔ جن سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر، محسن داوڑ، ثناء اعجاز، منظور پشتین اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ پولیس کے مطابق تقریر میں لوگوں کو نقص امن کی طرف مائل کیا گیا۔ جلسے کی تقاریر میں ریاستی اداروں، افواج پاکستان، پولیس اور رینجرز کے خلاف تضحیک آمیز اور اشتعال انگیز الفاظ استعمال کئے گئے۔

علی وزیر ایک جلسے میں تقریر کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
علی وزیر ایک جلسے میں تقریر کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جس میں مجرمانہ سازش، مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی اور انتشار پیدا کرنے اور فساد پر اکسانے والے بیانات دئیے جانے کے الزامات سمیت دیگر الزامات عائد کئے گئے ہیں۔

پشاور پولیس نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو بدھ کے روز پشاور سے گرفتار کیا تھا، جنہیں جمعرات کے روز ٹرانزٹ ریمانڈ پر کراچی منتقل کیا گیا۔ ہفتے کے روز پولیس نے علی وزیر کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کر کے 30 دمسبر تک جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، جسے عدالت نے منظور کرلیا تھا۔

جنوری 2018 میں کراچی پولیس کے مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف احتجاجی تحریک کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی پی ٹی ایم ابھی تک نشیب و فراز سے دوچار ہے۔

اس تحریک میں شامل اہم رہنماؤں کے خلاف ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزامات پر ملک کے چاروں صوبوں بالخصوص پشاور، کراچی، کوئٹہ، لاہور، اسلام آباد، راول پنڈی، سوات، بنوں، صوابی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں درجنوں مقدمات درج ہیں۔

XS
SM
MD
LG