رسائی کے لنکس

پاکستان میں مون سون میں 550 اموات، بلوچستان اور سندھ میں مزید بارش کی پیش گوئی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں مون سون بارشوں کے نتیجے میں اموات کی تعداد 550 سے تجاوز کرچکی ہے۔ ملک کے دو جنوبی صوبوں بلوچستان اور سندھ میں سیلاب سے تباہ کاریوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ بلوچستان میں اب تک 196 جب کہ سندھ میں 134 اموات کی تصدیق ہو چکی ہے۔

کوئٹہ میں وائس آف امریکہ کے نمائندے غلام مرتضیٰ زہری کے مطابق رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں مون سون بارشوں کے چوتھے ریلے نے ایک بار پھر بارکھان، کوہلو، موسیٰ خیل، کوہ سلیمان اور قلعہ عبداللہ کو شدید متاثر کیا ہے۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں حالیہ بارش اور سیلاب سے ہونے والے ہلاکتوں کی تعداد 196 ہوگئی ہے۔

ہفتے کی شب تیز اور طوفانی بارش کے باعث کوہلو کے ندی نالوں میں طغیانی آ گئی جب کہ نشیبی علاقے زیرِ آب ہیں۔

کوہلو میں امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے والے لیویز اہلکار محمد جمیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ روز کی بارشوں کے بعد کوہلو کے متعدد دیہاتوں میں سیلاب کا پانی داخل ہوا ہے۔

انتظامیہ نے پہلے ہی لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایات دے رکھی تھیں، جس کے باعث جانی نقصان کی اطلاعات نہیں ملیں البتہ سیلاب سے سینکڑوں مکانات منہدم ہوگئے اور مال مویشی سیلابی پانی میں بہہ گئے۔

لیویز اہلکار نے مزید بتایا کہ علاقے میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں تاہم کوہلو کے دور دراز دیہی علاقوں میں دشوار گزار راستوں کے باعث امدادی ٹیموں کی بعض دیہات تک رسائی نہیں ہوسکی ہے۔

بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:11 0:00

دوسری جانب بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں اطلاعات کے مطابق اندریوڑ ڈیم ٹوٹنے سے 10 سے زائد دیہات زیرِ آب آچکے ہیں۔

مقامی انتظامیہ کے مطابق موسیٰ خیل اور بارکھان میں 12 سے زائد افراد سیلابی ریلوں میں بہہ گئے ہیں جن میں سے چار کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جب کہ باقی افراد کی تلاش جاری ہے۔

ادھر سیلاب کے باعث موسیٰ خیل میں دو بڑے پل بہہ جانے سے موسیٰ خیل کا زمینی رابطہ دیگر علاقوں سے منقطع ہوگیا ہے اور امدادی ٹیموں کو متاثرہ علاقوں تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

مون سون بارش کے چوتھے اسپیل کے باعث سبّی کے علاقے تلی میں بھی سیلابی صورتِ حال ہے جہاں لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

حکام کے مطابق بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے علاقے گلستان میں حالیہ بارش سے مختلف مقامات پر تین ڈیم ٹوٹ گئے ہیں۔

ڈیمز ٹوٹنے سے ہفتے کی شب سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے افراد میں سے چھ کی لاشیں مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت نکالیں جب کہ 11 کے قریب افراد کو بچا لیا گیا۔

مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اب بھی 12 سے زائد افراد سیلابی ریلے میں بہہ چکے ہیں جو تاحال لاپتا ہیں۔

ادھر بلوچستان بھر میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے باقاعدہ سروے شروع کر دیا گیا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی زیرِ صدارت اجلاس ہوا، جس میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جاری امدادی سرگرمیوں اور نقصانات کے سروے سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں افسران پر مشتمل خصوصی ٹیموں کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا جو نقصانات کے سروے میں متاثرہ اضلاع کی انتظامیہ کو معاونت فراہم کرے گی۔

حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض کے پھیلنے سے بھی اموات ہوئی ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں ہیضے سے اب تک 32 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

سندھ میں سیلاب سے پانچ لاکھ سے افراد متاثر

ادھر سندھ میں مختلف اضلاع بھی شدید بارش اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین سلمان شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سکھر ڈویژن میں 32 جب کہ صوبے بھر میں 134 افراد بارش یا سیلاب سے متاثر ہوکر ہلاک ہوئے ہیں، جن میں 63 بچے بھی شامل ہیں۔ اسی طرح صوبے میں بارشوں میں مختلف حادثات میں 498 افراد زخمی ہوئے۔

صوبائی ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق بارشوں سے سب سے زیادہ متاثرہ اور بے گھر افراد کا تعلق ضلع دادو سے ہے جہاں تین لاکھ 86 ہزار سے زائد افراد حالیہ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے 14 ہزار 975 افراد بے گھر بھی ہوئے ہیں۔

صوبے بھر میں متاثرہ افراد کی تعداد پانچ لاکھ 48 ہزار بتائی جاتی ہے۔ ان افراد کے لیے صوبائی اور وفاقی ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اب تک 57 ریلیف کیمپس قائم کیے ہیں جب کہ ڈی واٹرنگ پمپس، 25 ہزار سے زائد خیمے اور نو ہزار سے زائد راشن بیگس تقسیم کیے جاچکے ہیں۔

دوسری جانب ضلع دادو میں بارش کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال میں گیسٹرو اور ہیضے سے بڑی تعداد میں بچوں کی اموات کی اطلاعات ہیں۔

دادو میں سندھی اخبار ’کاوش‘ سے وابستہ صحافی آصف جمالی کا کہنا ہے کہ بارشوں کے بعد گندا پانی استعمال کرنے سے پیدا ہونے والے وبائی امرض سے کم از کم 20 بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔

آصف جمالی کا کہنا ہے کہ ایسے کئی بچوں کے والدین نے انہیں بتایا کہ ان کے بچوں کو اسہال، قے اور دیگر علامات تھیں۔ دور دراز علاقوں میں بھی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں لیکن شدید بارش کے باعث ضلعے بھر میں سڑکیں ٹوٹنے اور راستے صاف نہ ہونے کی وجہ سے طبی سولیات نہیں پہنچائی جاسکی ہیں۔

اانہوں نے مزید بتایا کہ ایسی رپورٹس سامنے آنے کے بعد غیر سرکاری اداروں اور اب صوبائی محکمۂ صحت نے بھی کئی کیمپس قائم کیے ہیں، جہاں ایسے امراض کے شکار افراد کا علاج کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب صوبائی محکمۂ صحت کا کہنا ہے کہ گیسٹرو، اسہال اور ہیضے سے ضلعے میں کوئی موت ریکارڈ نہیں ہوئی۔

ترجمان محکمۂ صحت نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دادو میں اسہال اور پیچش کے 100 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں تاہم اس دوران کسی کی ہلاکت کی تصدیق نہیں ہوئی۔

ادوسری جانب ڈپٹی کمشنر دادو مرتضیٰ علی شاہ نے بتایا کہ میڈیا میں رپورٹ ہونے والی 17 ہلاکتوں میں سے نو کی تحقیقات مکمل کی جاچکی ہیں، جن میں سے پانچ بچوں کی موت کے بارے میں شبہ ظاہر کیا گیا کہ ان کی موت گیسٹرو کی وجہ سے ہوسکتی ہے البتہ اس کی مکمل تصدیق نہیں ہوسکی۔

انہوں نے بتایا کہ ضلع بھر میں اس وقت صورتِ حال کنٹرول میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دادو میں گندے پانی سے پیدا ہونے والے امراض کے علاج کے لیے ادویات کی بر وقت فراہمی کو ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ 64 میڈیکل کیمپس بھی حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے ہیں جن میں اسہال کے مرض میں مبتلا 609 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور انہیں علاج معالجے کے لیے ادویات فراہم کی گئی ہیں۔

بلوچستان کے ضلع خضدار اور دادو میں واقع کیرتھر رینج کے پہاڑوں پر شدید بارش کے نتیجے میں ضلع دادو میں گاج ندی میں طغیانی کی کیفیت ہے جس کی وجہ سے آس پاس کے دیہات، سڑکیں اور راستے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ان میں واہی پاندی سے جوہی جانے والی سڑک، حاجی خان اور جوہی، ٹنڈو رحیم خان سے چھنی اور چھنی سے جوہی کی بڑی سڑکیں شامل ہیں ۔

تاہم ڈپٹی کمشنر دادو کا کہنا ہے کہ ضلع کی چھ میں سے چار سڑکوں کو فوری طور پر ہی سفر کے قابل بنا دیا گیا ہے جب کہ دیگر سڑکوں کی مرمت کا کام بھی جاری ہے۔

محکمۂ موسمیات کی مزید بارش کی پیش گوئی

ادھر محکمۂ موسمیات نے ملک بھر میں مزید بارش کی بھی پیش گوئی کی ہے۔

محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ شمالی بحیرہٴ عرب پر موجود ہوا کا شدید کم دباؤ موجود ہے جب کہ اس کے ساتھ ایک اور ہوا کا کم دباؤ منگل سے سندھ میں داخل ہوگا، جس کے تحت 16 سے 18 اگست کے دوران سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں مزید بارش کا امکان ہے۔

حکام کے مطابق کراچی ڈویژن میں پیر اور منگل کو چند مقامات پر گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔ اسی طرح شہید بے نظیرآباد، نوشہرو فیروز، خیرپور، سکھر، لاڑکانہ، گھوٹکی، کشمور، شکارپور، جیکب آباد، دادو، جامشورو، قمبر شہدادکوٹ، تھرپارکر، عمرکوٹ، میرپورخاص، بدین، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہیار، حیدرآباد، مٹیاری سمیت دیگر اضلاع میں گرج چمک کےساتھ بارش کا امکان ہے۔

اسی طرح خضدار،لسبیلہ،حب اور کیرتھررینج پر مسلسل تیز بارش کے سبب حب ڈیم، تھڈو ڈیم پراضافی دباؤ ہوسکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG