رسائی کے لنکس

افغانستان ناکام ریاست بن سکتا ہے؛ برطانوی وزیر دفاع کا خدشہ


برطانیہ کے وزیر دفاع، بین ویلس (فائل فوٹو)
برطانیہ کے وزیر دفاع، بین ویلس (فائل فوٹو)

برطانوی وزیر دفاع بین ویلس نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان ناکام ریاست کا درجہ اختیار کرسکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ القائدہ کو ایک بار پھر ملک میں پنپنے کا بھرپور موقع میسر آ جائے۔

برطانوی نشریاتی ادارے اسکائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے القائدہ کے حوالے سے کہا کہ ''میں انتہائی فکرمند ہوں، کیونکہ ناکام ریاستیں دراصل اس قسم کے لوگوں کی افزائش گاہیں بن جایا کرتی ہیں''۔

اس سے چند ہی گھنٹے قبل ویلس نے اعلان کیا تھا کہ 4000 سے زائد برطانوی شہریوں اور 2000 پر مشتمل افغان باشندوں کے محفوظ انخلا کے لیے برطانیہ اپنی لڑاکا فوج کا ایک چاق و چوبند دستہ کابل روانہ کر رہا ہے۔ یہ 2000 افغان شہری وہ لوگ ہیں جنھوں نے برطانوی افواج کی افغانستان میں کسی نہ کسی حیثیت میں معاونت کی تھی اور اب انہیں یہ خدشہ ہے کہ کہیں طالبان ان کے خلاف انتقامی کارروائی نہ کریں۔

گزشتہ ماہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا سے قبل، ملک میں برطانیہ کے 750 فوجی تعینات تھے، جنھیں دوبارہ تعینات کیا جارہا ہے۔

جمعرات ہی کو حکام نے اعلان کیا کہ برطانیہ کے سفارت خانے کو موجودہ مقام سے ہٹا کر افغان دارالحکومت کے مضافات میں واقع گرین زون کے علاقے کی جانب منتقل کیا جا رہا ہے اور یہ اقدام سیکیورٹی کے سربراہان کی سفارش پر کیا جا رہا ہے۔

سفارت خانے میں تعینات عملے کی تعداد کم کرکے چند اہلکاروں پر مشتمل کر دی جائے گی، جن کا زیادہ تر کام انخلا کی درخواستیں نمٹانا ہوگا، جن کا مقصد متاثرہ افغان باشندوں کو برطانوی ویزا جاری کرنا ہے۔

جمعرات کے روز جب برطانوی دستوں کی تعیناتی کی تفاصیل کا اعلان کیا جارہا تھا، برطانوی وزیر دفاع نے بتایا کہ برطانوی شہریوں، برطانوی فوجی اہلکاروں اور سابق افغان عملے کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہم وہ تمام اقدام کریں گے جن کی مدد سے ہم ان کا تحفظ یقینی بنائیں۔ برطانوی دستہ زیادہ تر 16 ایئر اسالٹ برگیڈ پر مشتمل ہوگا، جو برطانوی فوج کی انتہائی جدید اور پیشہ وارانہ فورس کا درجہ رکھتا ہے۔

طالبان کے علاوہ افغانستان میں کون سے عسکریت پسند گروپ ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:48 0:00

ایک بیان میں برطانوی وزارت دفاع نے کہا کہ یہ تعیناتی آئندہ 48 گھنٹوں کے اندر کر دی جائے گی، جس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ ملک کی سیکیورٹی کی صورت تیزی سے بگڑ چکی ہے اور تشدد کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے تجویز کردہ حتمی تاریخ کے پیش نظر افغانستان میں موجود بَری افواج اور نیٹو ممالک کی فوجیں ستمبر کے اوائل تک افغانستان سے جا چکی ہوں گی، اور برطانوی فوج کا انخلا بھی اسی نظام الاوقات کے لحاظ سے ہی ہوگا۔

گزشتہ ہفتے جس تیزی سے طالبان کے لشکر نے پیش قدمی کی ہے، اس نے متعدد برطانوی اہلکاروں کو شش و پنج میں ڈال دیا ہے۔ ساتھ ہی، اس بات پر برطانیہ کے قدامت پسند قانون ساز اور چوٹی کے سابق برطانوی جنرلز نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے افغانستان سے انخلا سے متعلق فیصلے کو ہدف تنقید بنایا ہے۔

ایک ٹوئیٹ میں ایوان زیریں میں امور خارجہ کمیٹی کے سربراہ، ٹوم ٹوگندت نے، جن کا تعلق قدامت پسند پارٹی سے ہے، کہا ہے کہ ''یہ فیصلہ اتنی عجلت میں کیا گیا جیسے کسی نے اپنے ساتھیوں کے پیروں تلے سے قالین کھینچ لی ہو''۔ انھوں نے اس اقدام کو سمجھداری پر مبنی حکمت عملی اور سیاسی تدبر کی سوچ سے عاری قرار دیا۔

تاہم امریکہ میں افغانستان سے امریکی فوجی واپس بلانے کے فیصلے میں کسی ترمیم کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔

XS
SM
MD
LG