رسائی کے لنکس

دوحہ مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ: 'افغانستان میں امن کے لیے جامع حکمتِ عملی پر اتفاق ضروری ہے'


دوحہ میں 10 اور 12 اگست کو ہونے والے مذاکرات میں امریکہ، چین، پاکستان، ازبکستان، برطانیہ، یورپی یونین، اقوامِ متحدہ اور کئی دیگر ممالک کے سفارت کاروں نے شرکت کی۔
دوحہ میں 10 اور 12 اگست کو ہونے والے مذاکرات میں امریکہ، چین، پاکستان، ازبکستان، برطانیہ، یورپی یونین، اقوامِ متحدہ اور کئی دیگر ممالک کے سفارت کاروں نے شرکت کی۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں رواں ہفتے افغانستان سے متعلق ہونے والے مذاکرات میں شریک ملکوں کے نمائندوں نے افغانستان میں امن عمل کو تیز کرنے کو ضروری قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کے تمام شہروں اور صوبائی دارالحکومتوں پر زمینی اور فضائی حملوں کو فوری بند کیا جائے۔

قطر میں افغان اور طالبان مذاکرات کاروں سے ہونے والی ملاقاتوں کے بعد سفارتی نمائندوں کی طرف سے جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ فوجی طاقت کے زور پر افغانستان پر مسلط ہونے والی کسی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔

جمعرات کو جاری کردہ یہ اعلامیہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب طالبان نے ملک کے شمال اور جنوب مغرب میں واقع متعدد صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے اور بین الاقوامی برداری کی تشویش اور مطالبات کے باجود طالبان اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دوحہ میں 10 اور 12 اگست کو ہونے والے ان مذاکرات میں امریکہ، چین، پاکستان، ازبکستان، برطانیہ، یورپی یونین، اقوامِ متحدہ اور کئی دیگر ممالک کے سفارت کاروں نے شرکت کی۔

مذاکرات کے بعد جاری ہونے اعلامیے کے مطابق دوحہ مذاکرات میں شریک ممالک نے افغانستان بھر میں جاری تشدد، بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی ہلاکت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں سامنے آنے والی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کابل میں واقع کاردان یونیورسٹی سے منسلک بین االاقوامی امور کے ماہر فہیم سادات کہتے ہیں کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے مل کر کوششیں اسی صورت کامیاب ہو سکتی ہیں جب تک ایک جامع حکمت عملی پر اتفاق نہیں ہوجاتا۔

کابل سے فون پر بات کرتے ہوئے فہیم سادات نے کہا کہ افغان تنازع میں علاقائی ممالک کے اسٹیک ہولڈز ہیں اور ہر ایک کے افغانستان میں قیامِ امن اور مسقبل کے سیاسی نظام کے بارے میں مؤقف مختلف ہیں۔

ان کے بقول اگر علاقائی ممالک افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک متحدہ طرز عمل پر اتفاق کریں تو افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ ممالک ایک صفحے پر نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان، بھارت، ایران، چین اور روس کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ امریکہ کے فوجی انخلا کے بعد علاقائی ممالک کا افغانستان میں کردار اہم ہوگا۔

دوحہ مذاکرات کے اعلامیے میں طالبان کا نام کیوں نہیں؟

اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز سے منسلک بین الاقوامی کے ماہر نجم رفیق کا کہنا ہے کہ جب تک دنیا کے اہم ممالک اس بات پر اتفاق نہ کر لیں کہ افغانستان میں اب کوئی گریٹ گیم یا سرد جنگ شروع نہیں کرنی تو وہاں امن قائم ہو جائے گا۔

دوحہ مذاکرات کے مشترکہ اعلامیے میں طالبان کا نام نہ ہونے سے متعلق فہیم سادات کہتے ہیں اعلامیے میں طالبان کا نام لیے بغیر انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ طاقت کے زور پر کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کریں گے توبین الاقوامی برداری اسے تسلیم نہیں کرے گی۔

ان کے بقول طالبان کو بین الاقوامی سفارتی سطح پر اپنے آپ کو تسلیم کروانا ہے تو انہیں بین الاقوامی برداری کے پیغام کو سمجھنا ہوگا کہ طاقت کے زور پر کابل کا کنٹرول حاصل کرنے سے انہیں گریز کرنا ہوگا۔

فہیم سادات مزید کہتے ہیں دوحہ اعلامیہ طالبان کو عسکری طاقت کے بل بوتے پر افغانستان پر قبضے کی کوششیں ترک کرنے سے شاید روک سکتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ عالمی برادری کے دباؤ کے بعد وہ سیاسی تصفیے کے لیے بات چیت پر تیار ہو جائیں۔

XS
SM
MD
LG