رسائی کے لنکس

حیدرآباد-سکھر موٹروے منصوبہ: اربوں روپے کے مبینہ گھپلوں کا پتا کیسے چلا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حیدرآباد -سکھر موٹروے منصوبے میں اربوں روپے کی مبینہ خورد برد کے معاملے میں سندھ بینک کے تین افسران کو جیل بھیجا جا چکا ہے جب کہ ڈپٹی کمشنر مٹیاری عدنان رشید سمیت بینک کے اسسٹنٹ مینیجر تابش شاہ اور اسسٹنٹ کمشنر سعید آباد منصور عباسی بھی گرفتار ہو چکے ہیں اور اب تک 42 کروڑ روپےسے زائدبرآمد بھی کیے جا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ ڈپٹی کمشنر نوشہرو فیروز اور ڈپٹی کمشنر مٹیاری دونوں کو معطل بھی کیا جا چکا ہے۔

مگر یہ مبینہ گھپلوں کا پتا کیسے چلا؟ اس سلسلے میں سامنے آنے والی معلومات کے مطابق سندھ کی اینٹی کرپشن پولیس کو 16 نومبر کو یہ معلوم ہوا کہ سندھ بینک کی مٹیاری برانچ سے 438 اوپن چیکس یعنی کیش کی صورت میں 26 روز میں دو ارب 14 کروڑ 91 لاکھ روپے نکالے گئے ہیں۔

یہ رقم جس اکاؤنٹس سے نکالی گئی وہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) نے حیدرآباد-سکھر موٹروے کی تعمیر کے لیے اراضی کی خریداری کے واسطے مختص رکھا تھا۔

اینٹی کرپشن پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ رقم غیرقانونی طور پر نکالی گئی اور اس رقم کو نکالنے میں بینک کے اسسٹنٹ مینیجر تابش شاہ اور اسسٹنٹ کمشنر/لینڈ ایکوزیشن افسر سعید آباد منصور عباسی ملوث تھے۔رقم نکالنے کے بعد منصور عباسی کی جانب سے کسی اراضی کی خرید و فروخت کا کوئی ریکارڈ ترتیب ہی نہیں دیا گیا ۔

واضح رہے کہ ہائی وے اتھارٹی نے سندھ بینک میں دو سال قبل مجموعی طور پر چار ارب نو کروڑ 27 لاکھ سے زائد کی رقم موٹروے کی تعمیر کے لیے اراضی کی خریداری کی مد میں رکھی تھی، اس کے علاوہ اس رقم پر دو سال میں جمع ہونے والا 54 کروڑ 21 لاکھ روپے سے زائد کا منافع بھی اسی اکاؤنٹ میں موجود تھا۔

این ایچ اے کے ریجنل ہیڈ کوارٹرز میں تعینات ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تفتیشی حکام کو اس کی خبر اس وقت ملی جب موٹر وے کے لیے اراضی کی خریداری میں گھپلے کے لیے(جعلی) کاغذی کارروائی کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ اگر اربوں روپے کے ان گھپلوں کی یہ خبر منظر عام پر نہ آتی تو ملزمان خریدی گئی اراضی سے متعلق جعلی دستاویزات بناچکے ہوتے، سرکاری خزانے سے اس کی ادائیگی بھی ظاہر کردی جاتی اور اس کے بعد زمینوں کے اصل مالکان یا تو اپنی زمینوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے یا پھر معاملہ کئی برسوں تک عدالتوں میں لٹکتا رہتا، جس سےمنصوبے کو وقت پر مکمل کرنا ناممکن ہوجاتا۔

حکام کا دعویٰ ہے کہ اس سارے عمل کی نگرانی ڈپٹی کمشنر ضلع مٹیاری عدنان رشید خود کر رہے تھے۔ان کی نگرانی ہی میں دو ارب سے زائد رقم غیرقانونی طریقے سے بینک سے نکالی گئی اور اس رقم سے سے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت کوئی کام انجام ہی نہیں دیا گیا۔

دوسری جانب اسی منصوبے میں مبینہ خوردبرد کے حوالے سے ایک اور کیس شہید بے نظیر آباد کے ایف آئی اے سرکل تھانے میں این ایچ اے کے جنرل مینیجر پرکاش لوہانو کی مدعیت میں بھی درج ہوا ہے۔

اس مقدمے میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نوشہرو فیروز کو بھی این ایچ اے نے 1500 ایکڑ زمین کی خریداری کے لیے تین ارب 16 کروڑ روپے کے فنڈز کا اجرا کیا۔ لیکن ڈپٹی کمشنر تاشفین عالم نے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر ہی لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 کے برخلاف رقم کراس چیک کے بجائے اوپن چیکس کے ذریعے جاری کی۔بیرونِ ملک مقیم لوگوں کی زمینوں کو معاوضہ محض فوٹو اسٹیٹ کاغذات پر ہی جاری کردیا گیا۔یہی نہیں بلکہ زمیں خریدنے کے لیے شناختی کارڈ اور حلف نامے پر دستخطوں میں واضح فرق کے باوجود بھی بھاری رقوم جاری کردی گئیں۔

اس کے علاوہ متوفی افراد کی زمینوں کو حاصل کرنے کے عوض معاوضہ سادے حلف نامے پر ہی جاری کردیا گیا جب کہ ان کے ورثا کو اس بابت معلومات فراہم کرنا، ان کی رضا مندی اور ان سب میں معاوضے کی مساوی تقسیم سمیت دیگر کئی قانونی تقاضےپورے کرنا ضروری ہے۔ تاہم اراضی حاصل کرنے کے تمام عمل میں بورڈ آف ریونیو، نیب اور دیگر اتھارٹیز کے رہنما اصولوں کو مبینہ طو رپر نظر انداز کردیا گیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نوشہرو فیروز نے زمین حاصل کرنے کے لیے سرکاری فنڈز کو قانون کے بغیر اور انتہائی مشتبہ انداز میں خرچ کیا۔ اس پورے عمل میں سندھ بینک کے تین افسران کے خلاف بھی ایف آئی اے کو شکایت موصول ہوئی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر جعلی اور غلط بائیو میٹرک شناختی دستاویزات پر ہی لوگوں کو رقم کا اجرا کردیا، جس سے ملک کے خزانے کو ڈھائی ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔

اس مبینہ خورد برد کے معاملے کے بعد سے ڈپٹی کمشنر نوشہرو فیروز غائب ہیں اور ان کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ آذربائیجان جا چکے ہیں۔ البتہ سندھ بینک کے تین افسران کو گرفتاری کے بعد جیل بھیج دیا گیا ہے۔ان افراد میں سندھ بینک نوشہرو فیروز برانچ کے مینیجر مختار چانڈیو، آپریشن مینیجر عطا محمد سہتو اور کیش افسر ذیشان لاڑک شامل ہیں۔

اینٹی کرپشن پولیس کی جانب سے دائر الگ مقدمے میں بھی ڈپٹی کمشنر عدنان رشید سمیت بینک کے اسسٹنٹ مینیجر تابش شاہ اور اسسٹنٹ کمشنر سعید آباد منصور عباسی گرفتار ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈپٹی کمشنر نوشہرو فیروز اور ڈپٹی کمشنر مٹیاری دونوں کو معطل بھی کیا جا چکا ہے۔

ادھر سوشل میڈیا پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان اربوں روپے کی مبینہ خورد برد کے پیچھے بعض سیاسی شخصیات شامل ہیں, اس سلسلے میں مٹیاری سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر ریونیو مخدوم محبوب الزمان پر بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ ان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ صوبائی وزیر ریونیو کی مبینہ سفارش پر ہی ان کے آبائی حلقے مٹیاری میں ڈپٹی کمشنر عدنان رشید کو تعینات کیا گیا۔

اس کے علاوہ گرفتار ملزم عدنان رشید کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے بینک سے نکالی گئی رقم صوبائی وزیر کے کو آرڈینیر کے ذریعے ان تک پہنچائی۔

تاہم صوبائی وزیر مخدوم محبوب الزمان ان الزامات کو مسترد کردتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اسکینڈل کو سیاست زدہ کرکےبغیر تحقیق کے ہمارے نام جوڑے گئے ہیں۔

انہوں نےان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ زمین کی وصولی کا جو بھی طریقہ کار ہے، اس میں ان سمیت کسی رکن اسمبلی یا صوبائی حکومت کا کوئی بھی کردار یا عمل دخل نہیں ہے۔ان کے بقول زمین کی خریداری چوں کہ نیشنل ہائی وے کے لیے ہو رہی ہے اس لیے لین دین وفاقی حکومت اور ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر بورڈ آف ریونیو کےماتحت نہیں بلکہ محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کے ماتحت ہوتا ہے، جنہیں چیف سیکریٹری ہی تعینات کرتے ہیں۔ ان کے بقول ''میرے یا میرے خاندان کے خلاف دورانِ تفتیش کوئی الزام ثابت ہوجائے تو وہ ہر طرح کی سزا بھگتنے کو تیار ہیں۔''

کیا پاکستان سے کرپشن ختم ہو سکتی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:59 0:00

حکام کا کہنا ہے کہ اس کیس میں سب سے اہم چیز رقم کی برآمدگی ہے ، جس کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

اینٹی کرپشن سندھ نے کیس میں ملوث ملزم سابق ڈپٹی کمشنر مٹیاری کی نشاندہی پر چھاپہ مار کر اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس سعید آباد سے 42 کروڑ روپے برآمد کرلیے ہیں۔

دورانِ تفتیش پولیس کو سابق ڈپٹی کمشنر کے ڈرائیور نے بتایا کہ عدنان رشید نے بینک سے نکالی گئی رقم تین گاڑیوں میں ساہیوال میں واقع اپنے آبائی گھر منتقل کی۔ البتہ پولیس ابھی تک یہ رقم برآمد کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے اس کام میں اصل رکاوٹ زمینوں کے ریکارڈ کو اب تک کمپیوٹرائزڈ نہ کرنا ہے، جس کا حکم سپریم کورٹ نے بھی دے رکھا ہے۔ ان کے بقول ایسا نہ کرنے سے اراضی کے ہیر پھیر اور گھپلے با آسانی کیے جاسکتے ہیں۔اگر شفاف طریقے سے ریکارڈ مرتب کرکے اسے آن لائن جاری کردیا جائے تو اس طرح کے مسائل سے بہ آسانی نمٹا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ سکھر اور حیدرآباد کے درمیان 3306 کلومیٹر طویل موٹروے کا منصوبہ زیرِتکمیل ہے، جو سکھر کو خیرپور، نوشہرو فیروز، شہید بے نظیر آباد، شہداد پور، ٹنڈو آدم، مٹیاری سے ملاتا ہوا پر حیدرآباد پر اختتام پذیر ہوگا۔

بلٹ آپریٹ اینڈ ٹرانسفر (بی او ٹی) کی بنیاد پر سکھر حیدرآباد موٹروے کی تعمیر کے لیے نظرثانی شدہ منصوبے کو گزشتہ سال دسمبر میں حتمی طور پر منظور کیا گیا تھا۔ اس منصوبے پر 191 ارب روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا، س پر نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو عمل درآمد کرنا تھا۔

منصوبےکے تحت حیدرآباد اور سکھر کے درمیان چھ لین پرمشتمل موٹروے کی تعمیرعمل میں لائی جانی ہے۔

یہ منصوبہ 30 ماہ کی مدت میں مکمل کیا جانا ہے جس میں 15 انٹرچینجز، دریائے سندھ پر ایک بڑا پُل اور نہروں پر 82 پل بنائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ 19 انڈر پاسز اور برجز، 6 فلائی اوورز اور 10 سروس ایریاز بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ اس اہم سڑک کی تعمیر سے موٹروے کے ذریعے کراچی سے پنجاب کے مختلف شہروں کو جوڑنے کے ساتھ پشاور، سوات اور ہزارہ ڈویژن بھی ملک کے معاشی مرکز سے بذریعہ موٹر وے منسلک ہوسکیں گے۔

XS
SM
MD
LG