امریکہ نے سن 2007 میں اپنے ایک شہری کے لاپتا ہونے پر، جس کے متعلق خیال ہے کہ انہیں ہلاک کر دیا گیا تھا، ایران کے دو افراد پر پابندیاں عائد کی ہیں، جن کا تعلق ایرانی کی ایک انٹیلی جنس ایجنسی سے ہے۔
ان دونوں پر الزام ہے کہ انہوں نے ایف بی آئی کے ایک ریٹائرڈ اہل کار رابرٹ لیون سن کو اغوا اور بعد ازاں ممکنہ طور پر قتل کر دیا تھا۔
پیر کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے محکمہ خزانہ نے ایرانی انٹیلی جنس کے دو ایجنٹوں محمد بصری اور احمد خازئی پر پابندیاں لگا دیں ہیں۔ یہ دونوں اہل کار ایران کی فوجی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسی ایم او آئی ایس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔
امریکہ کے سینئر عہدے دار نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ امکان کم ہے کہ محمد بصری اور احمد خازئی کے امریکہ میں بینک اکاؤنٹ ہوں گے جو ان پابندیوں کی زد میں آ سکتے ہوں۔
تاہم ان کا کہنا تھا ایرانی عہدے داروں کو اپنے ملک سے باہر جانے کی صورت میں دوسری قسم کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جن میں بیرون ملک ایرانی وفد کی قیادت کرنا اور دوسرے ملکوں کے انٹیلی جنس عہدے داروں سے ملاقاتیں شامل ہیں۔
ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف کام کرنے والے ایک ایڈوکیسی گروپ کے پالیسی ڈائریکٹر جیسن براڈسکی نے وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کو بتایا کہ ایم او آئی ایس کے ایجنٹ ملک کے اندر اور باہر لوگوں کے اغوا اور قتل میں ملوث رہے ہیں۔
امریکہ اور ترک عہدے داروں نے مغربی میڈیا کو بتایا تھا کہ انہیں شبہ ہے کہ ایم او آئی ایس کے ایجنٹوں نے نومبر 2019 میں استنبول میں ایرانی حکومت کی مخالفت کرنے والی ایک شخصیت مسعود مولوی ورداجانی کو قتل اور اس سال اکتوبر میں ایک اور حکومت مخالف ایرانی حبیب چاب کو اغوا کیا تھا۔
ایران کے میڈیا نے کوئی تبصرہ کیے بغیر بصری اور خازئی پر امریکی پابندیوں کا ذکر کیا ہے۔ ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ایسنا نے اپنی ایک رپورٹ میں ایران کی وزارت خارجہ کے اس موقف کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے کہ ایران کا لیون سن کے لاپتا ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہ اس نے کئی برس پہلے ایران چھوڑ دیا تھا۔
لیون سن کے خاندان کا کہنا ہے انہیں سن 2010 اور پھر 2011 میں ان کے اغواکاروں کی جانب سے تصویروں اور ویڈیو کے بعد کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ زندہ ہے۔
خاندان کے افراد نے دو ایرانی ایجنٹوں پر امریکی پابندیوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ انصاف کے حصول کے طویل راستے پر یہ ایک اہم قدم ہے۔