رسائی کے لنکس

وفاق اور سندھ حکومت میں پانی کی کمی پر لفظی تکرار، مسئلے کا حل کیا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ میں برسرِ اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) گزشتہ چند ہفتوں سے صوبے کو پانی کی کم فراہمی پر احتجاج کر رہی ہے۔ بیانات کے ساتھ سرکاری خط و کتابت کے ذریعے بھی صوبائی حکومت نے وفاق کو پانی کی کمی کے معاملے پر صوبے کی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔

اس کے جواب میں وفاقی وزرا اور ملک میں پانی کی تقسیم کی نگرانی کے ذمہ دار ادارے نے بھی جوابات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور سندھ کو پانی کی کم فراہمی کے الزامات کو رد کیا ہے۔

معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ رواں ماہ چار مئی کو محکمۂ آب پاشی سندھ نے دریائے سندھ پر ڈیرہ غازی خان کے مقام پر قائم تونسہ بیراج سے 45 ہزار 447 کیوسک پانی کے بجائے اچانک 33 ہزار 666 کیوسک پانی چھوڑنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔

حکومتِ سندھ کی جانب سے پاکستان میں پانی کی تقسیم کار کے ذمہ دار ادارے 'انڈس ریور سسٹم اتھارٹی' کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ پانی کی فراہمی میں کمی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب صوبے میں پہلے ہی پانی کی کمی شدت اختیار کر چکی ہے اور سکھر بیراج سے پانی کا اخراج 1991 کے صوبوں کے درمیان پانی کے معاہدے کے مطابق 70 فی صد کم ہو چکا ہے۔

خط کے مطابق حیدر آباد میں واقع کوٹری بیراج سے چھوڑا گیا پانی بھی 46 فی صد کم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے کراچی کو پانی فراہم کرنے کے اہم ذریعہ کینجھر جھیل میں بھی پانی کی شدید کمی ہے۔

سندھ کو ایک اور اعتراض یہ بھی ہے کہ چشمہ جہلم لنک کینال کے ذریعے بھی پنجاب کو دریائے سندھ سے اضافی پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔

سندھ حکومت کا مؤقف ہے کہ چشمہ جہلم لنک کینال کے مقام پر نئے پاور پلانٹس لگانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جس سے اس نہر کو سال بھر کُھلا رکھنے کا بہانہ مل جائے گا اور یوں دریائے سندھ میں پانی کی کمی واقع ہوگی۔ جب کہ پنج ند بیراج کے مقام پر بھی پانی پر صوبوں کے درمیان ہونے والے معاہدے سے 12 ہزار کیوسک پانی زیادہ حاصل کرکے پنجاب کو دیا جا رہا ہے۔

’حکومت پانی کی منصفانہ تقسیم کرنے میں ناکام‘

اس مسئلے پر سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ سمیت پورے ملک میں پانی کی ترسیل کی منصفانہ تقسیم میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

بلاول نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سندھ کے زیریں علاقوں کو پیاس کا صحرا بنا دیا ہے۔ ان کے بقول کراچی، ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور تھر پارکر کا پانی بند کر کے حکومت نے ظلم کی انتہا کر دی ہے۔

پیپلز پارٹی چیئرمین نے مزید کہا کہ چاول کی کاشت کے موسم میں سندھ کے پانی کو روکنے کے پیچھے کیا سوچ کار فرما ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان اس کی وضاحت کریں۔

صوبوں کو 1991 کے معاہدے کے تحت پانی کی فراہمی

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے حکام کا مؤقف پیپلز پارٹی کے مؤقف سے بالکل مختلف ہے۔

رواں ماہ 17 مئی کو ارسا کی جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ میں 27 اپریل سے پانچ مئی کے دوران پانی کی شدید کمی دیکھنے میں آئی جس دوران تربیلا اور چشمہ کے مقامات پر پانی ڈیڈ لیول پر جا پہنچا تھا۔ تاہم صورتِ حال میں چھ مئی کے بعد بہتری آنا شروع ہوئی ہے۔

ارسا کے مطابق سندھ کی درخواست پر 17 مئی سے چشمہ ڈاؤن اسٹریم کے مقام پر پانی کے بہاؤ میں پانچ ہزار کیوسک اضافہ بھی کیا گیا ہے۔

ارسا حکام کا کہنا ہے کہ سندھ کو کپاس کی کاشت کے وقت پنجاب سے زيادہ پانی فراہم کيا گیا۔ اس دوران سندھ کو صرف چار فی صد پانی کی کمی جب کہ پنجاب کو 16 في صد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب جنوبی پنجاب کو کپاس کے لیے پانی فراہم کیا جا رہا ہے اور سب صوبوں کو ان کے حصہ کے مطابق پانی ديا جا رہا ہے۔

ارسا کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت پنجاب اور سندھ دونوں کو 18، 18 فی صد پانی کم فراہم کیا جا رہا ہے۔ جب کہ سندھ، بلوچستان کے حصہ کا بھی پانی خود استعمال کر رہا ہے اور اس وقت بلوچستان کو 61 فی صد پانی کی کمی کا سامنا ہے۔

ارسا کے مطابق کراچی کو پانی کی فراہمی ميں ارسا کا کوئی کردار نہيں اور يہ صوبے کا اندرونی معاملہ ہی ہے۔ جب کہ چشمہ جہلم لنک کينال اور تونسہ پنج ند لنک کينال پر بھی کوئی تنازع نہيں۔ ان نہروں ميں پنجاب اپنے حصہ کا پانی ارسا کی اجازت سے ليتا ہے۔

ارسا کے ترجمان نے مزید وضاحت کی کہ چشمہ جہلم لنک کینال پر پاور پلانٹس لگانے کا کوئی منصوبہ زیرِ غور نہیں ہے۔

’پانی کی کمی کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دینا عصبیت‘

ایسے میں وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر نے بلاول بھٹو زرداری کے اس متعلق بیان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اسے صوبائی عصبیت پر مبنی قرار دیا ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کے عزائم تو قومی سیاست کے ہیں اور بیان صوبائی عصبیت پر مبنی ہے۔

ان کا دعوی تھا کہ سندھ کے عوام کے حقوق غصب کوئی اور صوبہ نہیں، بلکہ سندھ کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والی جماعت ہی دہائیوں سے کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں خریف کی فصل اُگانے کا موسم ہے جو جون کے وسط تک جاری رہے گا جس کے بعد چاول اور گنے کی فصل کاشت کی جاتی ہے جس میں بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پانی کی کمی کی وجہ سے بہت سے کاشت کار پریشانی کا شکار ہیں۔ خاص طور پر زیریں سندھ کے علاقوں میں، جن میں ضلع ٹھٹھہ، سجاول، بدین، تھرپارکر، میرپورخاص اور سانگھڑ شامل ہیں، نہ صرف زرعی بلکہ گھریلو استعمال کے لیے بھی پانی کی قلت ہے اور عام طور پر مون سون بارشیں شروع ہونے تک کم و بیش یہی صورتِ حال رہتی ہے۔

مسئلے کا حل کیا ہے؟

یہ پہلا موقع نہیں کہ سندھ نے اس قدر شدت کے ساتھ صوبے میں پانی کی کمی کے مسئلے پر احتجاج کیا ہو۔ سندھ کو اکثر یہ شکایت رہی ہے کہ صوبوں کے درمیان 1991 میں پانی کی تقسیم کے معاہدے پر عمل نہیں ہو رہا اور سندھ کو اس کے حصے سے کم پانی دیا جاتا ہے۔

معاہدے کے تحت کوٹری ڈاؤن اسٹریم سے سالانہ ایک کروڑ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں چھوڑے جانے کو ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ سمندری چڑھاؤ اور اس کے نتیجے میں زمینیں سمندر بُرد ہونے سے بچائی جائیں۔

البتہ سمندر میں اس قدر پانی نہیں چھوڑا جاتا جس کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زمینیں سمندر میں شامل ہو چکی ہیں اور اس کے نتیجے میں ہجرت کرنے والے لوگوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ جب کہ اس دوران ارسا نے بھی سالانہ رپورٹوں میں پنجاب اور سندھ پر پانی چوری اور اس حوالے سے غلط رپورٹس پیش کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔

’نئے ذخائر بننے سے فراہمی میں بہتری آئے گی‘

واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے سابق چیئرمین اور ملک میں پانی کے مسائل پر گہری نظر رکھنے والے شمس المُلک کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی ایک حقیت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن اس مسئلے کا حل ان کی نظر میں پانی کے چھوٹے بڑے ذخائر بنانے میں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں شمس الملک کا کہنا تھا کہ منگلا اور تربیلا ڈیم بننے سے قبل سندھ کو سال کے ان مہینوں کے، جن میں بارش نہیں ہوتی، دوران کم پانی ملتا تھا۔ البتہ ڈیم کے بننے سے ملک کے زیریں علاقوں میں ان مہینوں میں بھی پانی کی فراہمی میں بہتری آئی، جن میں بارش نہیں ہوتی۔

دریائے سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ سے ماہی گیر پریشان
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:15 0:00

سندھ کی تقریباََ تمام ہی سیاسی جماعتیں دریائے سندھ پر مزید کسی ڈیم کی تعمیر کی مخالف ہیں۔ خاص طور پر کالاباغ ڈیم کے خلاف صوبائی اسمبلی میں ایک سے زائد مرتبہ قراردادیں بھی منظور کی گئی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دریائے سندھ پر اب تعمیر ہونے والے دیامیر بھاشا ڈیم پر وہ مخالفت پیپلز پارٹی کی جانب سے دیکھنے میں نہیں آئی جو اس سے قبل یہ جماعت کالا باغ ڈیم کی کرتی آئی ہے۔

پانی کا مسئلہ تکنیکی سے زیادہ سیاسی

ارسا کے ایک سابق سربراہ اور واپڈا میں بھی اہم عہدے پر تعینات رہنے والے ایک اور سابق ٹیکنو کریٹ نے وائس آف امریکہ کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ صوبوں میں پانی کی تقسیم کا معاملہ اکثر تکنیکی سے زیادہ سیاسی طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔

انہوں نےکہا کہ اس کا تکنیکی حل دنیا بھر میں موجود ہے جو کہ ٹیلی میٹری سسٹم کا نفاذ اور اس کی شفاف نگرانی ہے۔ پاکستان میں بعض ڈیم اور بیراج ماضی میں اس نظام کے تحت چلتے رہے ہیں البتہ ابھی یہ نظام اس قدر فعال اور شفاف انداز میں چلایا نہیں جا رہا جس کے نتیجے میں صوبوں کے درمیان شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور سیاست دان انہیں عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG