رسائی کے لنکس

نیویارک میں پاکستانیوں کی مدد کر رہے ہیں، قونصل جنرل عائشہ علی


نیویارک میں پاکستان کی قونصل جنرل عائشہ علی نے کہا ہے کہ ریاست نیویارک میں بڑی تعداد میں پاکستانی کمیونٹی رہتی ہے اور وہ کرونا وائرس سے متاثر ہوئی ہے۔ نیویارک کا پاکستانی قونصل خانہ جس حد تک ممکن ہو سکتا ہے، اپنی کمیونٹی کی مدد کر رہا ہے۔

وائس آف امریکہ کے نیویارک میں نمائندے، انشومن آپٹے کو خصوصی انٹرویو میں قونصلر جنرل نے بتایا کہ پروازیں بند ہونے کی وجہ سے بہت سے پاکستانی امریکہ میں پھنس گئے ہیں۔

انھوں نے قونصل خانے سے رابطہ کرکے مالی تعاون طلب کیا تھا اور ان کی ضرورت کے مطابق سب کی فوری طور پر مدد کی گئی ہے۔ جب اور جیسے ہی لوگ ہم سے رابطہ کریں گے، ان کی مدد کی جائے گی۔ لوگ فون، انٹرنیٹ اور فیس بک پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ لوگوں کی مدد کے لیے علیحدہ بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

ان سے سوال کیا گیا کہ نیویارک میں کتنے پاکستانی کرونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ انھوں نے کوئی تعداد بتانے سے عذر کیا اور کہا کہ یہ بات امریکی انتظامیہ بہتر بتاسکتی ہے۔ جب وبا کی صورتحال ہو تو اس میں مقامی حکومت لوگوں کی جان بچانے میں مصروف ہوتی ہے۔ جب حالات بہتر ہوں گے تو امید ہے کہ امریکی انتظامیہ اور ریاست نیویارک کے حکام اس بارے میں معلومات سے آگاہ کریں گے۔

عائشہ علی نے کہا کہ تعداد اور اعداد و شمار کے بجائے اس وقت لوگوں کی مدد کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ اس وقت انسانی بحران ہے جس میں مل جل کر انسانیت کے کام آنا چاہیے۔ قونصل خانے نے بہت سے اقدامات کیے ہیں جن کی پہلے مثال نہیں ملتی۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں پروازیں معطل ہیں، کیونکہ کرونا وائرس کے کیسز باہر سے آئے ہیں۔ نہ صرف ریاست نیویارک بلکہ امریکہ کے دوسرے حصوں میں بھی پاکستانی پھنس گئے ہیں۔ قونصل خانہ ان سے مکمل رابطے میں ہے۔ ان میں طلبہ بھی ہیں، وزٹ کے لیے آئے ہوئے لوگ بھی شامل ہیں۔ کچھ لوگ اپنے رشتے داروں سے ملنے آئے تھے۔ کچھ بزنس میٹنگز کے لیے آئے تھے۔

قونصلر جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مرحلہ وار پروازوں کا سلسلہ شروع کیا ہے جن کے ذریعے پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو وطن واپس پہنچایا جا رہا ہے۔ برطانیہ، ملائیشیا، چین اور دوسرے ملکوں سے پاکستانیوں کو واپس پہنچایا گیا ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی نیویارک میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے لیے پروازیں چلائی جائیں گی۔

انھوں نے کہا کہ میں بہت خوشی سے آپ کو بتانا چاہوں گی کہ ہم نے پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی ہر طرح سے مدد کی ہے۔ اگر کسی کو مالی تعاون درکار تھا، کسی کو قیام کی جگہ یا خوراک کی ضرورت تھی، ویزا بڑھوانا تھا، یہاں تک کہ جن لوگوں کو دواؤں کا نسخہ چاہیے تھا، قونصل خانے نے ان کی مدد کی ہے۔ ہماری ہیلپ لائن پر 24 گھنٹے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

عائشہ علی نے کہا کہ جو پاکستانی طلبہ امریکہ میں موجود ہیں ان میں سے کچھ کی آن لائن کلاسیں جاری ہیں۔ اس لیے ان کا یہاں رہنا ضروری ہے۔ کچھ کے کورسز ختم ہوچکے ہیں اور وہ پاکستان جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ قونصل خانے کو بعض طلبہ کے ویزے کی مدت میں اضافے کی درخواستیں ملی تھیں، جن کی رہنمائی کی جا رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ جس دن سے یہ بحران شروع ہوا ہے، قونصل خانہ مقامی پاکستانیوں کی تنظمیوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ یہ تنظیمیں کمیوںٹی کی مدد کر رہی ہیں۔ ورچوئل ٹاؤن ہال کے ذریعے بروکلن اور کوئنز کے علاقے میں موجود لوگوں کی ضروریات کا اندازہ لگایا اور منصوبہ بندی کی کہ کام کیسے آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ قونصل خانے کے تمام وسائل ان کے لیے حاضر ہیں۔

انھوں نے کہا کہ قونصل خانہ پاکستانیوں کی تدفین کے مسئلے کو بہت اہمیت دے رہا ہے۔ غیر معمولی حالات اور انتہائی متعدی وائرس ہونے کی وجہ سے امریکی انتظامیہ نے بعض پابندیاں لگائی ہیں۔ لیکن، کوشش کی جا رہی ہے کہ مرنے والوں کا ان کے عقائد کے مطابق جنازہ اور تدفین کی جائے۔

فیونرل ہومز بہت مشکل کام کر رہے ہیں۔ اگر کمیونٹی ممبرز نے قونصل خانے سے رابطہ کیا ہے تو ان کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا تھا، کیا گیا ہے۔ آج کل تدفین کے اخراجات بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔ کسی کو ڈاکٹر یا اسپتالوں سے سہولتوں کی ضرورت ہے تو ہم ان کی مدد کر رہے ہیں۔ ہم مقامی حکام کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں، تاکہ اپنی کمیونٹی کے لیے سہولتیں حاصل کر سکیں۔

عائشہ علی نے کہا کہ جن لوگوں کا نقصان ہوا ہے، قونصل جنرل ان کے دکھ میں برابر کا شریک ہے۔ ہم اپنے لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور دن رات ان کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اگر کسی کو ضرورت ہوگی تو ہم ہر ممکن تعاون کریں گے۔

XS
SM
MD
LG