رسائی کے لنکس

رپورٹرز ڈائری: ہرن مجھے دیکھنے آتے ہیں


کرونا وائرس کے خوف سے لوگ گھروں میں بند ہیں اور ہرن گلیوں میں گھوم رہے ہیں۔
کرونا وائرس کے خوف سے لوگ گھروں میں بند ہیں اور ہرن گلیوں میں گھوم رہے ہیں۔

ان دنوں ہرن مجھے دیکھنے آ رہے ہیں۔ کل شام ایک ہرنی اپنے ایک بچے کو بھی لائی تھی۔ دونوں کچھ دیر کھڑکی کے پاس کھڑے رہے اور گردن اٹھا اٹھا کر مجھے دیکھنے کے بعد درختوں کی جانب مڑ گئے۔ میں انہیں رشک بھری نظروں سے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔

میرا گھر واشنگٹن ڈی سی کی ایک مضافاتی آبادی میں ہے۔ یہاں گنتی کے چند گھر ہیں اور ان کے چاروں طرف گھنے اور اونچے درخت ہیں۔ یہ ایک قدرتی جنگل ہے جس کے بیچوں بیچ ایک چھوٹی سی ندی بہتی ہے۔ جب رات گہری ہو جاتی ہے تو تاریکی کے سناٹوں میں پانی کی جل ترنگ سنائی دیتی ہے۔

میں جب کبھی رات کو دیر سے لوٹتا ہوں تو گھر کے سامنے کی سٹرک پر کبھی ایک دو اور کبھی تین چار ہرن گھوم پھر رہے ہوتے ہیں، جو کار کی روشنیاں دیکھ کر چھلانگیں لگاتے درختوں میں غائب ہو جاتے ہیں۔ محلے والے بتاتے ہیں کہ جنگل میں کچھ اور جانور بھی رہتے ہیں۔ لیکن میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا۔ چند روز پہلے تک تو میں نے کبھی دن کی روشنی میں ہرنوں کو بھی نہیں دیکھا۔ لیکن اب وہ مجھے دیکھنے آ رہے ہیں۔

میں ان دنوں اپنے گھر میں بند ہوں۔ مجھے باہر نکلے ایک مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ میرے دن کا زیادہ حصہ محلے کی گلی میں کھلنے والی کھڑکی کے پاس گزرتا ہے۔ یہ ایک بڑی کھڑکی ہے۔ قریب ایک کرسی اور چھوٹی سی میز رکھی ہے۔ میں اپنا لیپ ٹاپ اور فون لے کر وہاں بیٹھ جاتا ہوں۔ ان دنوں یہ میرا دفتر ہے۔ جب لیپ ٹاپ کی سکرین سے آنکھیں دھکنے لگتی ہیں تو میں کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیتا ہوں۔

کئی دنوں سے باہر کا منظر ٹھہرا ہوا ہے۔ گاڑیاں گھروں کے سامنے خاموش کھڑی ہیں۔ گھروں کے دروازے بند ہیں۔ کوئی باہر نہیں نکل رہا۔ لیکن درختوں پر پتے نکل رہے ہیں کیونکہ موسم بدل رہا ہے۔ لوگوں نے گھروں کے باہر ابھی پھول نہیں لگائے۔ باہر نکلیں گے تو لگائیں گے۔ ہاں البتہ جنہوں نے کتے پال رکھے ہیں، وہ شام کو انہیں گھمانے کے لیے نکلتے ہیں۔ موسم اور حالات چاہے جیسے بھی ہوں، کتے کو ہر روز باہر لے کر جانا کتا رکھنے والوں کی مجبوری ہے، خاص طور پر امریکہ جیسے ملکوں میں۔

واشنگٹن کے میٹروپولیٹن علاقے میں گو لاک ڈاؤن تو نہیں ہے، لیکن لوگوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں اور اہم ضرورت، مثلاً گراسری، ادویات اور واک وغیرہ کے سوا باہر نہ نکلیں۔ واشنگٹن کی میئر کا کہنا ہے کہ بعض علاقوں میں لوگ ہدایات پر عمل نہیں کر رہے، جس سے واشنگٹن کے لیے حالات سنگین تر ہو تے جا رہے ہیں۔

تین ہفتے پہلے میرا بیٹا نیویارک سے آیا تو وہاں کرونا کے دو ڈھائی ہزار مریض تھے۔ اب یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے، یعنی امریکہ میں کرونا کے متاثرین کی کل تعداد کا تقریباً ایک تہائی۔ ایک ان دیکھے دشمن نے شاہرائیں، گلیاں اور کوچے سنسان کر دیے ہیں، زندگی کی رونقیں اجڑ گئی ہیں۔

کرونا وائرس نے باہر کا منظر ہی نہیں بدلا، گھر کی دنیا بھی بدل دی ہے۔ لوگ گھروں میں محصور ہو گئے ہیں۔ کوئی ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہے۔ کسی نے صوفے پر دفتر سجایا ہوا ہے۔ بہت سے گھروں میں بچوں کی خوشی دیدنی ہے، انہیں مدتوں کے بعد گھر میں ماں باپ کو ایک ساتھ دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ کئی شوہر کھانا پکانے میں بیوی کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ اس نے بگھاری دال پکانا سیکھ لی ہے۔ میں نے پوچھا کہ بگھارے بینگن بنانا کیوں نہیں سیکھے؟ بولے بینگن آئیں گے تو پکیں گے، دالیں گھر میں پڑی ہیں، سو پک رہی ہیں۔ میرے ایک اور دوست نے کھانا پکانا تو نہیں سیکھا، لڑنا سیکھ لیا ہے۔ کہنے لگے کہ اب میں بیگم کو چپ کرا دیتا ہوں۔

پہلے جب صبح ہوتی تھی تو پریشانی میں آنکھ کھلتی تھی کہ دفتر جانا ہے۔ بھاگم دوڑ میں تیاری ہوتی تھی۔ آدھا سلائس پلیٹ میں اور آدھی چائے کپ میں پڑی رہ جاتی تھی۔ ٹریفک میں طبیعت الگ بیزار ہوتی تھی۔ دن بھر کی مارا ماری کے بعد شام کو جب گھر پہنچتے تھے تو لگتا تھا کہ جیسے ایک دن نہیں بلکہ ایک صدی گزار آئے ہیں۔

لیکن اب اطمینان سے اٹھتا ہوں۔ ناشتے کی کوئی پریشانی نہیں کہ جب دل چاہے گا، کر لیں گے۔ کونسا بھاگے جا رہے ہیں۔ شیو تک کی جھنجھٹ نہیں۔ پہلا ہفتہ تو میں نے شیو بھی نہیں کی۔ جب آئینہ دیکھا تو اپنی صورت پہچانی نہیں گئی۔ خود سے کہا کہ صاحب یہ نہیں چلے گا۔ کبھی شیشہ بھی دیکھنا پڑ جاتا ہے۔

اس ایک مہینے میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ میرے بیڈ روم کی کھڑکی پیچھے کی طرف ایک بڑی سڑک پر ہے۔ جب کبھی میں اسے کھولتا تھا تو ٹریفک کا بے ہنگم شور اندر گھس آتا تھا اور مجھے جلدی سے کھڑکی بند کرنی پڑتی تھی۔ لیکن اب میں کھڑکی کھولتا ہوں تو چڑیوں کی چہچہاہٹ اور پرندوں کی وہی آوازیں آتی ہیں جو کبھی میں نے بچپن میں سنی تھیں۔ ماضی کی یاد بھی خوب آئی۔ جب پچپن میں بیٹا باہر گلی میں جانے کے لیے دروازے کی جانب بڑھتا تھا تو میں آواز دیتا تھا کہ باہر نہیں جانا۔ اب میں جب دروازے کی طرف جاؤں تو پیچھے سے بیٹے کی آواز آتی ہے، ابو باہر نہیں جانا۔ کردار وہی رہتے ہیں۔ وقت ان کی جگہیں بدل دیتا ہے۔ بچپن میں میں اسے ایک دو تین اور اے بی سی سکھاتا تھا، آج کی نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں وہ مجھے سمجھاتا ہے۔

آج کل میری واحد پریشانی یہ ہے کہ میں واک کے لیے باہر نہیں جا سکتا۔ مجھے لڑکپن ہی سے سیر کی عادت ہے۔ واک نہ کروں تو کوئی کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ اب میں تقریباً آدھ گھنٹہ کمرے میں ہی چکر لگا لیتا ہوں۔ ایک چکر آدھے منٹ میں پورا ہو جاتا ہے۔ ایک چھوٹے سے دائرے میں مسلسل گھومنے سے سر بھی چکرانے لگتا ہے۔ اب پتا چلا کہ کولہو کے بیل کی آنکھوں پر کھوپے کیوں چڑھائے جاتے ہیں۔

میرے ایک دوست یہاں سے دس میل دور ایک فارم ہاؤس میں رہتے ہیں۔ انہیں بھی بچے گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے۔ میں نے کہا کہ آپ تو جنگل میں رہتے ہیں۔ آپ کو کرونا کا کیا خطرہ۔ بولے، بچے کہتے ہیں کہ یہ ان دیکھا دشمن آبادیوں اور جنگلوں میں کوئی تمیز نہیں کرتا۔ افریقہ کے صحراؤں سے سائیبریا کے برفانی علاقوں تک، ہر جگہ پہنچا ہوا ہے۔ پھر لمبا سانس لے کر بولے، وہ سچ ہی کہتے ہیں۔ میرے ایک کولیگ کا جوان بیٹا مچھلی پکڑنے دریائے پوٹامک پر گیا۔ مچھلی تو نہیں پکڑی گئی، خود کرونا کی پکڑ میں آ گیا۔ آج کل قرنطینہ میں ہے۔

کرونا نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ بڑی بڑی عمارتوں سے دفتر گھروں کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں چلے گئے ہیں۔ ایک ایک گھر میں کئی کئی دفتر کھل گئے ہیں۔ ہمارے گھر میں روزانہ چار دفتر لگتے ہیں۔ میرا دفتر کھڑکی کے ساتھ ہے۔ یاسمین کا دفتر ڈائنگ ٹیبل پر سجتا ہے۔ بیٹے نے بیسمنٹ کو اپنا دفتر بنا رکھا ہے اور اپر فلور کا کمرہ بیٹی کے پاس ہے۔ سائنس کی تیز تر ترقی نے کام کاج کو اتنا آسان بنا دیا ہے کہ ایک لمحے کو بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کام گھر کے ایک چھوٹے سے لیپ ٹاپ سے چل رہا ہے یا دفتر کے ایک بڑے ڈیسک ٹاپ کے سیٹ اپ سے۔

میں جب کھڑکی کے پاس بیٹھتا ہوں تو دن میں ایک دو مرتبہ باہر ہرن ٹہلتے نظر آتے ہیں۔ اب وہ کچھ مانوس سے ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ سڑک سے لان میں آنے لگے ہیں اور کبھی کبھی تو کھڑکی کے بھی قریب آ جاتے ہیں، جیسے جھانک کر اندر دیکھنا چاہتے ہوں۔

آج میرے سامنے کے تیسرے مکان کی کھڑکی بھی کھل گئی ہے۔ وہاں رہنے والے کا نام جیکسن ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ گود میں لیپ ٹاپ لیے جھولنے والی کرسی پر بیٹھا ہے اور جھولتے ہوئے اپنا دفتر چلا رہا ہے۔سہ پہر کے وقت میں نے اس کے لان میں دو ہرن دیکھے۔ شاید وہ اسے جھولتے ہوئے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ آج وہ میری کھڑکی کے پاس نہیں آئے۔ یہ مجھے اچھا نہیں لگا۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG