رسائی کے لنکس

روایتی دواؤں سے کرونا وائرس کا علاج، کامیابی کا امکان کتنا ہے؟


ان دنوں کرونا انفکشن کے مریضوں کا علاج مختلف قسم کی دواؤں سے کیا جا رہا ہے۔ زیادہ تر ملکوں میں انہیں ملیریا کی دوائیں اور اینٹی بائیوٹک دی جا رہی ہیں۔ اس کے نتائج ملے جلے ہیں۔ تاہم یہ کرونا کا علاج نہیں ہے۔

سائنس دان فوری نتائج حاصل کرنے کے لیے پہلے سے دستیاب دواؤں پر تجربات کر رہے ہیں کیونکہ نئی دوا کی تلاش، تجربات اور تیاری میں کثیر سرمایہ اور کم و بیش دس سال لگ جاتے ہیں۔

کرونا کی کوئی باقاعدہ اور مستند دوا موجود نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگ دیگر طریقہ علاج کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ جن میں ہومیوپیتھک، طب یونانی، آئیوویدک، قدیم چینی طریقہ علاج اور جڑی بوٹیاں شامل ہیں۔

ان دنوں سوشل میڈیا پر کئی ٹوٹکے بھی ان دعوؤں کے ساتھ پوسٹ کیے جا رہے ہیں کہ یہ وائرس کا تیر بہدف علاج ہے۔ صحت کے عالمی ادارے نے حال ہی میں ان ٹوٹکوں کے متعلق خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔ اور یہ کہ لوگ معالج کے مشورے کے بغیر کسی ٹوٹکے یا دوا کا تجربہ کرنے سے باز رہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک ایسے ہی ٹوٹکے پر عمل کرنے سے ایران میں تقریباً تین سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

عالمی ادارہ صحت کے ترجمان طارق جاسارویک نے کہا ہے کہ ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ بہت سے لوگ متبادل دواؤں کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن وہ کرونا وائرس کا علاج نہیں ہے۔ حملہ اگر سخت نہ ہو تو ان دواؤں سے کچھ علامتوں میں قدرے آرام مل جاتا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے دو سب سے گنجان آباد ملکوں، چین اور بھارت میں بہت سے لوگ کرونا وائرس جیسی علامتوں کے علاج کے لیے متبادل دوائیں استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ کم آمدنی، کم علمی اور قدیم طریقہ علاج پر نسلوں سے قائم اعتماد ہے۔

یہ صورت حال صرف چین اور بھارت میں ہی نہیں ہے بلکہ افریقہ سمیت ان ملکوں میں بھی پائی جاتی ہے جہاں علاج معالجے کی مناسب سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔

یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ان ملکوں میں حکومتیں بھی متبادل طریقہ علاج کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔

پچھلے مہینے چین کے نیشنل ہیلتھ کمشن نے کرونا وائرس کے مریضوں کے علاج سے متعلق ایک پمفلٹ جاری کیا تھا جس میں انگریزی دواؤں کے علاوہ جڑی بوٹیوں سے تیارہ کردہ کئی مقامی دوائیں بھی شامل تھیں۔ پمفلٹ میں بتایا گیا تھا کہ دیسی دواؤں کے استعمال سے کمزوری اور بخار دور کرنے مدد ملتی ہے۔

چین کے طبی مرکز میں رواتی دوائیں تیار کی جا رہی ہیں۔
چین کے طبی مرکز میں رواتی دوائیں تیار کی جا رہی ہیں۔

چین میں دیسی طریقہ علاج بہت مقبول ہے اور ان شفاخانوں کے باہر لمبی قطاریں نظر آتی ہیں۔ ان کی کئی دوائیں تو ایسی ہیں جن کی کوئی سائنسی توجیح نہیں ہے اور وہ صدیوں پرانے نسخوں کے مطابق بن رہی ہیں۔ کئی ایک میں تو مختلف جانوروں کی چربی اور ان کے جسمانی اجزا بھی شامل کیے جاتے ہیں۔

کئی ایشیائی ملکوں میں ہومیوپیتھک طریقہ علاج بھی بہت مقبول ہے۔ اس کی وجہ یہ تاثر عام ہونا کہ ہومیو دواؤں کے سائیڈ ایفکٹ نہیں ہوتے، اور دوسرا اس علاج کا سستا ہونا ہے۔ دہلی میں سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے ایک ہومیوپیتھک اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر انو کپور نے میڈیا کو بتایا کہ حکومت نے ہومیوپیتھک کی ایک دوا کرونا وائرس کے علاج کے لیے منظور کی ہے۔

بھارت کے شہر احمد آباد میں قائم آئیوویدک لیبارٹری میں تجارتی پیمانے پر دوائیں تیار کی جا رہی ہیں۔
بھارت کے شہر احمد آباد میں قائم آئیوویدک لیبارٹری میں تجارتی پیمانے پر دوائیں تیار کی جا رہی ہیں۔

بھارت میں آئیوویدک والوں کی جانب سے حال ہی میں یہ اشتہاری مہم چلائی گئی تھی کہ مضبوط معدافعتی نظام کرونا وائرس کا علاج ہے۔ اس مہم میں معدافعتی نظام کو طاقت ور بنانے والی آئیوویدک دوائیں پیش کی گئی تھیں۔

اسی دوران بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک قدامت پسند رکن اسمبلی سمن ہری پریا نے دعوی کیا کہ گائے کا پیشاب اور گوبر کرونا وائرس کا علاج ہے۔

ایک ایسا ہی دعوی وینزویلا کے صدر نکولس نے کیا۔ تاہم ان کا دعوی بھارتی رکن اسمبلی کے مقابلے میں بہتر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا کا علاج جڑی بوٹیوں کی چائے ہے۔ انہیں مقامی میڈیا پر جڑی بوٹیوں کی چائے پیتے دکھایا بھی گیا۔ یاد رہے کہ وینزویلا میں صحت کا نظام انتہائی مخدوش ہے۔

نائیجریا کے صدر نکولس ماڈورو
نائیجریا کے صدر نکولس ماڈورو

افریقہ کے کئی ملکوں میں کرونا وائرس اپنے پاؤں جما رہا ہے۔ وہاں حکومتیں اس پر کنٹرول کے لیے روایتی دواؤں کی طرف بھی دیکھ رہی ہیں۔ زمبابوے کی وزارت صحت نے حال ہی میں ملک میں کرونا وائرس پر کنٹرول کے مرکز کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ وائرس کے علاج کے لیے جڑی بوٹیوں سے بھی کام لے۔ خط میں دعوی کیا گیا ہےکہ جڑی بوٹیاں اس عالمی وبا کے خلاف بہت مؤثر ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کرونا وائرس کا حملہ شدید نہ ہو تو صحت یابی کے لیے عموماً کسی دوا کی ضرورت نہیں پڑتی۔ محض آرام کرنے اور اچھی غذا کھانے سے مریض ٹھیک ہو جاتا ہے۔

کرونا کی عمومی علامتوں میں کھانسی اور بخار شامل ہیں۔ جڑی بوٹیاں اور متبادل دوائیں ان علامتوں کی شدت میں کمی کرتی ہیں جس سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ان کے استعمال سے شفا ملی ہے۔ جب کہ اصل میں یہ کام انسانی جسم کا قدرتی معدافعتی نظام وائرس کو ہلاک کر کے سر انجام دیتا ہے۔

کرونا وائرس اگر پھیپھڑوں تک پہنچ جائے تو مہلک ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ نمونیا جیسی علامتیں پیدا کر کے سانس لینے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ جو افراد سانس اور دل کے امراض میں مبتلا ہوں، انہیں بطور خاص زیادہ احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ کرونا کا حملہ انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔

جب تک کرونا کی دوا یا ویکسین تیار نہیں ہو جاتی، سماجی فاصلے قائم رکھنا، اپنے معدافعتی نظام کو کمزور نہ ہونے دینا، اور دن میں کئی بار اپنے ہاتھ صابن اور پانی سے اچھی طرح دھونے سے ہی آپ خود کو اس وائرس سے بچا سکتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG