رسائی کے لنکس

مریم نواز صبح سویرے سروسز اسپتال سے واپس جیل منتقل


Maryam NAwaz
Maryam NAwaz

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی طبیعت میں بہتری کے بعد اُنہیں سروسز اسپتال سے واپس لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کردیا گیا ہے۔

حکومت کی اجازت کے بعد مریم نواز والد سے ملاقات کے لیے بدھ کو سروسز اسپتال پہنچی تھیں جہاں اچانک طبیعت خراب ہونے پر اُنہیں وہیں داخل کرلیا گیا تھا۔

ڈاکٹروں کے مطابق مریم نواز کی طبیعت بہتر ہوچکی ہے جس کے بعد اُنہیں جمعرات کی صبح واپس جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے مریم نواز کو جیل منتقل کرنے سے متعلق اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ مریم نواز کی صبح پانچ بجے جیل واپسی تشویش ناک ہے، اس وقت بھی ان کی طبیعت خراب تھی۔

اس سے قبل سابق وزیرِ خزانہ اور نواز شریف کے سمدھی، اسحاق ڈار نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ میاں نواز شریف کی حالت اب قدرے بہتر ہے۔ لیکن، طبی اعتبار سے پریشانی ابھی ٹلی نہیں ہے۔

اُن کے بقول، ’’میرے اور خاندان کے دیگر احباب کی جانب سے احتجاج اور شور شرابے کے بعد، تین دن قبل انھیں اسپتال منتقل کیا گیا۔ انہیں علاج کے لئے ملک سے باہر لے جانے کے حوالے سے فی الحال کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔‘‘

اسحاق ڈار نے کہا کہ ’’دس دن قبل نواز شریف کے مسوڑھوں سے خون آنا شروع ہوا تھا۔ ڈاکٹروں نے اہل خانہ کو بتایا کہ ایمیون تھریمبو سائیٹوپینیا ( آئی ٹی پی) ایک ایسا ’ڈس آرڈر‘ ہے جس سے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد مقررہ سطح سے کم ہو جاتی ہے اور بہنے کی صورت میں خون رکتا نہیں ہے۔‘‘

نواز شریف کی طبیعت سے متعلق ان کے سمدھی اسحق ڈار سے وائس آف امریکہ کی خصوصی گفتگو
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:22 0:00

پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف نے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی حالت تشویشناک ہونے کے حوالے سے اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ اور بتایا جا رہا ہے کہ بلڈ ٹرانسفیوژن کے باوجود ان کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد میں لگاتار کمی آرہی ہے۔

منگل کی شب خون لگانے کے بعد ان کے پلیٹ لیٹس کی تعداد 30 ہزار ہوئی تھی جو بدھ کی شام تک ایک بار پھر سات ہزار تک پہنچ گئی تھی۔

مقامی میڈیا کے مطابق، نواز شریف نے مسوڑھوں سے خون آنے کی بھی شکایت کی ہے جس کے بعد ان کی مکمل تشخیص کے لیے کراچی سے ڈاکٹر طاہر شمسی کو بھی بلوایا گیا ہے۔

نواز شریف کی دوسری صاحبزادی اسما کے حوالے سے بھی اطلاعات ہیں کہ وہ جمعرات کی صبح لاہور پہنچ رہی ہیں۔

ترجمان (ن) لیگ مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد ابھی کم ہے قوم اور کارکنان سے محمد نواز شریف کی صحت میں مزید بہتری کے لیے دعا جاری رکھنے کی اپیل ہے۔

نواز شریف بیرون ملک جائیں گے؟

نواز شریف کے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کے حوالے سے پہلی بار حکومتی مؤقف سامنے آیا ہے، جس میں پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسیمن راشد کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک جانا چاہیں گے تو انکار نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر یاسمین راشد نے لاہور سروسز اسپتال میں نواز شریف سے ملاقات کی اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’نواز شریف نے بتایا ہے کہ وہ علاج سے مطمئن ہیں۔ وہ اگر باہر جانے کا ذکر کرتے تو میں ان کی بات پہنچا دیتی۔ لیکن انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔

ان کے بقول، وہ نواز شریف کے پاس حکومت کا پیغام لے کر گئی تھی کہ اگر وہ کسی بھی قسم کی سہولت چاہتے ہیں تو انہیں دی جائے گی۔‘‘

سابق وزیرِ اعظم نواز شریف ان دنوں لاہور کے سروسز اسپتال زیرِ علاج ہیں۔ (فائل فوٹو)
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف ان دنوں لاہور کے سروسز اسپتال زیرِ علاج ہیں۔ (فائل فوٹو)

ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ ہم بیماری کی صحیح تشخیص چاہتے ہیں۔ لیکن اس میں وقت لگتا ہے۔ کسی بھی مریض کے جب پلیٹ لیٹس گرتے ہیں تو احتیاطی تدابیر کی جاتی ہے۔ احتیاط کے طور پر نواز شریف کو ٹوتھ برش اور شیو نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

پنجاب کی وزیر صحت نے کہا کہ ’’میں ایک ڈاکٹر ہوں کسی کی بیماری پر سیاست نہیں کروں گی۔ ہم کیوں کسی کا برا چاہیں گے۔ سیاست کا مقصد یہ نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔‘‘

یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف بیرون ملک کا کہیں گے تو پھر ہمیں اور کم از کم میری طرف سے کوئی انکار نہیں ہوگا۔ تاہم، جو بھی ہوگا قانون کے مطابق ہوگا۔

سوشل میڈیا پر ان کی حالت کے حوالے سے مختلف اطلاعات آرہی ہیں اور معروف صحافی کامران خان نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ انہیں دو حکومتی شخصیات نے کنفرم کیا ہے کہ نواز شریف کی صحت تشویشناک ہے اور اگر آئندہ چوبیس گھنٹوں میں پلیٹ لیٹس خود سے بننا نہ شروع ہوئے تو نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی جائے گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ’’میاں نواز شریف کی خرابی صحت کی خبروں پر سخت فکر مند ہوں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’میں محسوس کر سکتا ہوں کہ میاں نواز شریف کی دوران قید علالت سے اہل خانہ کس تکلیف سے گزر رہے ہوں گے، اپوزیشن رہنماؤں کو صرف سیاسی انتقام کے لیے اذیتیں دی جا رہی ہیں۔‘‘

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان، مریم اورنگزیب نے بتایا ہے کہ ’’مریم نواز شریف کو طبیعت کی ناسازی پر سروسز اسپتال داخل کر لیا گیا ہے۔ ان کے طبی ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں‘‘۔

اس سے قبل، نواز شریف کا علاج کرنے والے میڈیکل بورڈ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کی طبیعت اب پہلے سے بہت بہتر ہے۔ ان کے جسم میں خون کے وہ خلیات جو خون کو جمانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں (پلیٹ یلیٹس) کی بہت کمی ہو گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ میڈیکل بورڈ نے اُن کے مزید ٹیسٹ تجویز کیے ہیں اور خون کے نمونے لیبارٹری بھجوا دیے گئے ہیں۔ رپورٹ آنے پر بورڈ دوبارہ بیٹھے گا اور پھر مزید کچھ کہا جا سکے گا۔

ڈاکٹر محمود ایاز کے بقول، ’’میڈیکل بورڈ دن میں دو سے تین مرتبہ بیٹھتا ہے، تاکہ میاں صاحب کی تشخیص اور علاج میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔‘‘

دوسری جانب، حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے صوبائی وزیر برائے ہاؤسنگ محمود الرّشید کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کو نیب نے مروجہ قوانین کے تحت گرفتار کیا ہوا ہے اور انہیں عدالتیں ہی آزاد کریں گی۔ ان کے بقول، اس سارے معاملے میں حکومت کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمود الرشید نے کہا کہ حکومت میاں صاحب کے علاج کے لیے ہر ممکن کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’اگر ان رہنماؤں کو، خدانخواستہ، کچھ ہوتا ہے، تو حکومت کے لیے بڑا مسئلہ ہوگا۔ زرداری صاحب ہوں یا نواز شریف، سب کے علاج کے لیے حکومت بہترین سہولیات فراہم کر رہی ہے۔‘

صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ کہنا کہ حکومت جان بوجھ کر ان لیڈران کی صحت کے ساتھ کھیل رہی ہے، ایک بے بنیاد الزام ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو پیر اور منگل کی درمیانی شب طبیعت خراب ہونے پر سروسز اسپتال لاہور منتقل کیا گیا تھا، جہاں اُن کے علاج کے لیے سینئر ڈاکٹروں پر مشتمل چھ رکنی میڈیکل بورڈ بنانے کے ساتھ 21 ڈاکٹروں پر مشتمل اسٹاف کی ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں۔

ادھر لاہور ہائی کورٹ میں بھی مریم نواز کی ضمانت پر رہائی کی درخواست کی سماعت ہوئی جو جسٹس باقر علی نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔

نیب کے پراسیکیوٹر نے تفصیلی جواب دینے کے لیے عدالت سے مہلت طلب کی ہے۔ عدالت عظمٰی نے نیب کو تفصیلی جواب داخل کرانے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت 30 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے۔

XS
SM
MD
LG