رسائی کے لنکس

کیپٹل ہل حملہ: سرکاری ریکارڈ خفیہ رکھنے کی ٹرمپ کی درخواست مسترد


تین ججوں کے بینچ نے 68 صفحوں پر مشتمل اپنے فیصلے میں سابق صدر کی جانب سے ان کاغذات کو خصوصی اختیارات کے پیش نظر ایوان کی کمیٹی کے سامنے نہ پیش کرنے کے دلائل کو رد کیا۔
تین ججوں کے بینچ نے 68 صفحوں پر مشتمل اپنے فیصلے میں سابق صدر کی جانب سے ان کاغذات کو خصوصی اختیارات کے پیش نظر ایوان کی کمیٹی کے سامنے نہ پیش کرنے کے دلائل کو رد کیا۔

امریکہ میں ایک وفاقی عدالت نے سابق صدر ٹرمپ کی درخواست مسترد کر دی ہے جس میں انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ کیپٹل ہل پر ان کے حامیوں کی جانب سے کیے جانے والے حملے سے متعلق سرکاری دستاویزات اس حملے کی تحقیقات کرنے والی ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی سے صیغۂ راز میں رکھی جائیں۔

تین ججوں کے بینچ نے جمعرات کو 68 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں سابق صدر کی جانب سے ان کاغذات کو خصوصی اختیارات کے پیشِ نظر ایوان کی کمیٹی کے سامنے پیش نہ کرنے کے دلائل کو رد کیا۔

جج پیٹریشیا ملٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ چھ جنوری کے واقعات سے متعلق جاننے کے لیے کانگریس کے پاس اہم وجوہات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کی یہ دلیل درست ہے کہ ان کاغذات کی عوامی اہمیت ہے اور انہیں کمیٹی کے روبرو پیش کیا جانا چاہیے۔

ملٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سابق صدر دلائل دینے میں ناکام رہے کہ ان دستاویز کے افشا کرنے کے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر اس وقت دھاوا بول دیا تھا جب کانگریس میں بائیڈن کی انتخابات میں جیت کی توثیق کا عمل جاری تھا۔

نیشنل آرکائیوز کے مطابق جو ریکارڈ سابق صدر ٹرمپ افشا ہونے سے رکوانا چاہتے ہیں ان میں چھ جنوری سے متعلق صدارتی ڈائریاں، وزیٹر لاگ، تقاریر کے مسودے، ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹ، سابق چیف آف اسٹاف مارک میڈوز کی اس سے متعلق کچھ فائلز اور الیکشن کی شفافیت سے متعلق ایک صدارتی حکم نامے کا مسودہ شامل ہیں۔

جج پیٹریشیا ملٹ نے ریکارڈ کو خفیہ رکھنے کی درخواست پر اپنے فیصلے میں لکھا کہ "جو ریکارڈ ہمارے سامنے پیش کیا گیا اس کے مطابق سابق صدر ٹرمپ اس بات کی کوئی توجیح نہیں دے سکے کہ صدر جو بائیڈن کا فیصلہ کیوں غلط ہے۔"

انہوں نے لکھا کہ حکومت اس بات پر اتفاق کرتی ہے کہ ان دستاویز کو افشا کرنے کی اہم قانونی ضرورت ہے۔ اور یہ کمیٹی کی انکوائری کے لیے براہِ راست اہم ہیں۔

اپیل کورٹ نے کہا کہ جن ضوابط کے تحت قومی آرکائیو ان دستاویز کو دینے سے انکاری ہے ان کی مدت دو ہفتے میں ختم ہو رہی ہے یا اس کا انحصار سپریم کورٹ کی جانب سے صدر ٹرمپ کی متوقع اپیل کے فیصلے پر ہے۔

کورٹ کا کہنا تھا کہ جن خصوصی اختیارات کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ سابق صدر ٹرمپ کے ذاتی نہیں تھے بلکہ انہیں جمہوریہ کی جانب سے تفویض کیے گئے تھے۔

صدر ٹرمپ کا مواخذہ: اگلا قدم کیا ہوگا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:17 0:00

کورٹ کے مطابق یہ استثنیٰ صدارت کے عہدے کو حاصل ہے نہ کہ ذاتی طور پر سابق صدر کو۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ہاؤس کمیٹی اور سابق صدر ٹرمپ کے نمائندوں سے اس حوالے سے ردِ عمل ظاہر کرنے کے لیے جمعرات کو رابطہ کیا گیا لیکن فوری طور پر اس پر کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان مائیک گوین نے منگل کو ہونے والی سماعت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر بائیڈن کا عزم ہے کہ صدارتی استثنیٰ کو ایسی معلومات کے تحفظ کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے جو آئین کو ہی پامال کرنے کی واضح اور ظاہری کوشش کا عکاس ہو۔

یاد رہے کہ سابق صدر ٹرمپ نے چھ جنوری کی کمیٹی اور قومی آرکائیو پر حامیوں کی چڑھائی سے متعلق دستاویز فراہم کرنے پر مقدمہ درج کیا تھا۔ دوسری جانب صدر بائیڈن نے موجودہ صدر ہونے کے ناطے صدر ٹرمپ کے انتظامی استثنیٰ کو ختم کر دیا تھا۔

اس خبر کے لیے کچھ مواد 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG