رسائی کے لنکس

پولیس کی دعا زہرا کو بازیاب کرنے کی تصدیق، شوہر اور مبینہ سہولت کار زیرِ حراست


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی سے مبینہ طور پر لاپتا ہونے والی لڑکی دعا زہرا کو پنجاب اور سندھ کی پولیس نے ایک مشترکہ کارروائی میں پنجاب کے ضلع بہاول نگر کی تحصیل چشتیاں سے بازیاب کرا لیا ہے۔ لڑکی کے والد نے بیٹی کی بازیابی کی تصدیق کر دی ہے۔

پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے دعا زہرا کے شوہر ظہیر احمد اور ایک سہولت کار کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔

دعا زہرا کی بازیابی کے لیے کراچی اور لاہور کی پولیس نے پنجاب کے شہر چشتیاں میں مشترکہ کارروائی کی جب کہ اس آپریشن میں بہاول نگر کی پولیس کی معاونت بھی حاصل تھی۔

رپورٹس کے مطابق پولیس نے دعا زہرہ کے شوہر ظہیر احمد اور اس مبینہ سہولت کار کو قانونی کارروائی کے بعد کراچی روانہ کر دیا ہے۔

پاکستان کے انگریزی اخبار ’ڈان‘ کی رپورٹ کے مطابق کراچی جنوبی کی پولیس کے ایس ایس پی زبیر نذیر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ دعا زہرا اور اس لڑکی سے شادی کا دعویٰ کرنے والے ظہیر دونوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ نے لاہور پولیس کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ دعا زہرا اور ان کے شوہر ظہیر احمد کو ایک وکیل کے گھر سے برآمد کیا گیا۔

دعا زہرا کی بازیابی کے کی تصدیق کے حوالے سے ان کے والد مہدی علی کاظمی کی ایک ویڈیو بھی زیرِ گردش ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں سندھ ہائی کورٹ میں دعا زہرا کیس کی سماعت میں عدالت نے پولیس کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کامران فضل سے چارج واپس لینے کی بھی ہدایت کی تھی۔ عدالت نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو حکم دیا تھا کہ آئی جی سندھ کا چارج کسی اہل افسر کے حوالے کیا جائے۔

بعد ازاں وفاقی کابینہ نے سندھ پولیس کے آئی جی کی تبدیلی کی منظور تھی اور دو روز قبل غلام نبی میمن کو آئی جی سندھ تعینات کیا گیا ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق غلام نبی میمن 1991 سے پولیس میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور آئی جی بننے سے قبل کراچی پولیس کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔

واضح رہے کہ دعا زہرا کراچی میں شاہ فیصل ٹاؤن کے علاقے گولڈن ٹاؤن سے گزشتہ ماہ مبینہ طور پر لاپتا ہو گئی تھیں۔ بعد میں انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کی عمر 18 برس ہے اور انہوں نے خود کراچی سے لاہور آ کر ظہیر نامی لڑکے سے کورٹ میرج کر لی ہے۔

دعا نے ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے ظہیر سے شادی کی ہے اور وہ اسی کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔

لاہور کی سیشن کورٹ نے بھی دعا زہرا کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اسے تنگ نہ کیا جائے۔

دعا کے والد سید مہدی کاظمی نے اس شادی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

ایک پریس کانفرنس میں ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی شادی کو ابھی 15 برس ہوئے ہیں اور دعا اپنی عمر سے متعلق غلط بیانی کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی شادی سات مئی 2005 کو ہوئی تو ان کی بیٹی کیسے 18 سال کی ہوسکتی ہے۔مہدی کاظمی نے الزام لگایا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا ہے۔

قبل ازیں لاہور کی عدالت نے جب دعا زہرا کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دی تو ایسا تاثر ملا کہ یہ ایک پسند کی شادی ہے اور اب یہ مسئلہ حل ہوچکا ہے۔

گزشتہ ماہ 24 مئی کی سماعت میں پولیس نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ دعا ابھی تک بازیاب نہیں ہو سکی کیوں کہ پولیس کے مطابق 21 یا 22 مئی کو دعا کو خیبر پختونخوا منتقل کیا گیا ۔ پھر وہ وہاں سے آزاد کشمیر منتقل ہو گئے۔

عدالت نے پولیس کو پہلے 30 مئی بعد میں 10 جون تک وقت دیا کہ دعا زہرا کو بازیاب کرایا جائے۔ عدالت کی جانب سے اس کیس میں پولیس، انٹیلی جنس اداروں اور وزارتِ داخلہ کے سیکریٹری کو نوٹسز جاری کیے تھے کہ بچی کی بازیابی کے لیے مدد کریں۔

دعا زہرا کا معاملہ کیسے سامنے آیا؟

دعا زہرا کے والد سید مہدی کاظمی کے مطابق ان کی تین بیٹیاں ہیں جس میں دعا زہرا سب سے بڑی ہیں۔ 16 اپریل کی دوپہر ان کی بیٹی کوڑے کی دو تھیلیاں لے کر گھر کی بالائی منزل سے نیچے اتریں اور اس کے بعد پراسرار طور پر لاپتا ہوگئیں۔

مہدی کاظمی نے اپنے طور پر بیٹی کو تلاش شروع کی جس کے بعد وہ پولیس اسٹیشن گئے۔ ان کے مطابق کراچی میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے جلسے کے سبب پولیس مصروف تھی جس کے باعث ان کی بیٹی کی گمشدگی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔

تین روز گزر گئے تو انہوں نے دیگر لوگوں سے رابطے شروع کیے اور انہیں مسئلے سے آگاہ کیا۔ بعد ازاں سوشل میڈیا پر یہ معاملہ زیرِ بحث آیا تو حکام نے نوٹس لیا۔

یوں دعا کی گمشدگی کا معاملہ ہر خاص و عام کی زبان پر آگیا اور سوشل میڈیا پر دعا کی تصاویر کے ساتھ ان کی تلاش کے لیے ٹرینڈز چلنے لگے۔

XS
SM
MD
LG